زندگیاں بہت اہم ہیں، چاہے وہ آپ کی ہو یا میری!... حمرا قریشی

انٹونیو گٹیرس تباہی اور ہلاکتوں سے بے حد فکرمند اور پریشان ہیں کیونکہ فلسطین اور لبنان میں، یا اس کے ارد گرد ہلاکتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں، بحران والی حالت میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>لبنان پر حملہ کی فائل تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

لبنان پر حملہ کی فائل تصویر / آئی اے این ایس

user

حمرا قریشی

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گٹیرس نے گزشتہ گاندھی جینتی (2 اکتوبر) پر مہاتما گاندھی کے عدم تشدد، امن اور مساوات کے پیغام پر توجہ مرکوز کی۔ انھوں نے عالمی سطح پر پھیلتے ہوئے تشدد، نفرت اور قتل و غارت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یوکرین سے لے کر سوڈان، مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے تک جنگ و تباہی کا ماحول ہے۔ بدحالی اور خوف نے زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ عدم مساوات اور ماحولیاتی انتشار امن کی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ آن لائن جو نفرت دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ اب سڑکوں پر دکھائی دے رہی ہے۔‘‘

انٹونیو گٹیرس جاری تباہی اور انسانی ہلاکتوں میں اضافہ سے بے حد فکرمند اور پریشان نظر آتے ہیں۔ ایسا اس لیے کیونکہ فلسطین اور لبنان میں، یا اس کے ارد گرد ہلاکتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں، بحران والی حالت میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ لگتا ہے جیسے یہ سب رکنے والا بھی نہیں ہے۔ سینکڑوں اور ہزاروں افراد لبنان سے نقل مکانی کر رہے ہیں اور کسی نامعلوم مقام کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ اگر وہ شام میں پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو بھی ان کے لیے مشکلات بڑھنے ہی والی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو بھی لوگ بچ گئے ہیں، ان کی زندگی دشوار ہی ہوتی جا رہی ہے، ان کا بچنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

کیا اس جنگ کو روکنا ممکن ہے؟ کیا نام نہاد سپرپاور امریکہ ہزاروں افراد کی زندگی بچانے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے، یا پھر یہ تباہی قیامت میں بدل جائے گی! اور پھر عرب حکمراں کہاں ہیں، جو اس تشویشناک تباہی کے تماش بین بنے ہوئے ہیں! غالباً عرب ممالک کے سیاسی حکمرانوں نے اس کہاوت نہیں سنی کہ آج آپ مشکل میں ہیں، کل میں یا ہم مشکل میں ہو سکتے ہیں!


عرب حکمرانوں کے ذریعہ حالات پر کوئی رد عمل نہ دیے جانے سے متعلق کئی سال قبل مشہور و معروف عرب ماہر تعلیم و سفیر کلووس مقصود نے مجھ سے کہا تھا ’’عرب ممالک کا امریکہ پر وسیع اسٹریٹجک انحصار ہے، جو اس غلط سوچ کی وجہ سے ہے کہ امریکہ ہی واحد طاقت ہے جو اسرائیل کو فلسطین تنازعہ پر جواب دینے کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔ یہ انحصار غلط ہے کیونکہ اسرائیل نے سبھی بین الاقوامی پیمانوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل واحد ایسا ملک ہے جس نے 1967 کے بعد سے کبھی بھی اپنی سرحدوں کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اس نے کبھی اعتراف نہیں کیا کہ وہ ایک قبضہ کرنے والی طاقت ہے اور اس نے خود کو اپنی بستیوں کی توسیع کرنے کا لائسنس دے رکھا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اقوام متحدہ کے چوتھے جنیوا کنونشن میں پاس اس قرارداد کی خلاف ورزی ہو رہی ہے جو کسی بھی قبضہ کرنے والی طاقت کو اس کے قبضے والے ملک کی سرحدوں کو بدلنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، امریکہ نے اسرائیل کو اپنا اہم ساتھی بنانے کا متبادل منتخب کیا ہے اور اس نے اسرائیل کو اقوام متحدہ کنونشن کی خلاف ورزی کرنے کا لائسنس دے دیا ہے۔ اس کے لیے اسرائیل کو کسی طرح کی سزا نہیں دی جاتی۔‘‘

آج اگر میں آپ کو کچھ سال پیچھے کی طرف لے جاؤں، تو میں نے 2001 میں نئی دہلی میں نوم چومسکی کا انٹرویو کرتے وقت ان سے بہت کچھ سنا تھا۔ نوم چومسکی نے تفصیل سے بتایا تھا کہ ’’دہشت گردی کا خطرہ محض ایسا کنواں نہیں ہے جس میں ہم جھانک رہے ہیں، اسلحوں کی دوڑ کی وسعت سے مزید بڑا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ اسلحوں کی دوڑ لفظ نامناسب ہے کیونکہ ابھی امریکہ تنہا ہی مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کا ہدف ’مکمل اسپیکٹرم بالادستی‘ حاصل کرنا ہے۔ یہ منصوبے کچھ سالوں سے سرکاری دستاویزات میں موجود ہیں اور مذکورہ منصوبوں کو وسعت دی جا رہی ہے۔ خلاء میں عسکریت پسندی کے منصوبے ’بیلسٹک میزائل ڈیفنس‘ (بی ایم ڈی) کے نام سے خفیہ طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکی خلائی کمان اس سلسلے میں بہت واضح ہے۔ کلنٹن کے دور کی اشاعتوں میں ابتدائی ہدف کو ترجیحی طور پر مقرر کیا گیا ہے، جو ’امریکی مفادات اور سرمایہ کاری کی حفاظت کے لیے فوجی مہموں کے خلائی زاویہ پر حاوی ہونا‘ ہے۔‘‘


موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے عرب عوام بڑھتے خطرات، امریکی اور دوست ممالک کی غیر مرئی فوج کے خطرات سے متعلق بات کر رہی ہے۔ افواج آگے بڑھ رہی ہیں، دراندازی کر رہی ہیں، تباہی پھیلا رہی ہیں۔ یہ سب طاقتور ممالک کی منصوبہ بند اور اچھی طرح سے کارگر پالیسیوں کے مطابق ہو رہا ہے، جو اپنی وسعت پسندانہ منصوبوں کو آگے بڑھانے پر آمادہ ہیں۔ انسانوں، ان کی نفسیات اور راستے میں نظر آنے والے کسی بھی بنیادی ڈھانچے پر فوجی طاقت کا استعمال ہو رہا ہے۔ نمائندہ حاکموں یا موجودہ حاکموں کو خاموش کرانے کے لیے، یا ان لوگوں کی کسی بھی منصوبہ بند مداخلت کو روکنے کے لیے سبھی طرح کی سازشیں اور پالیسیاں موجود ہیں۔

میں نے لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام سے ایک قومی روزنامہ کے لیے انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو کے دوران سیف الاسلام نے عرب ممالک یا حکمرانوں کے درمیان اتحاد کی کمی سے متعلق تفصیل سے بتایا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’اگر مجھے لیبیا پر حکومت کرنے کا موقع دیا جائے تو میری پہلی ترجیح عرب ممالک کو ایک ساتھ لانا، عرب ممالک کے درمیان اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ ایسا اس لیے کیونکہ صرف اسی سے ہم اسرائیلیوں اور امریکیوں کے ذریعہ بے عزت ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ امریکہ ایک سپرپاور ہونے کے ناطے کوئی بھی پابندی عائد کرنے یا کسی دیگر ملک پر بمباری کرنے یا حملہ کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ وہ سبھی چھوٹے ممالک جو ان سب کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، ان کے سامنے اس جارحیت کا تماشہ دیکھنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ یہ ان حقائق میں سے ایک ہے جس کے ساتھ ہمیں جینا ہے۔ ہم پوری طرح سے اسرائیل کے خلاف ہیں، ہم تو اسے ایک ملک بھی تسلیم نہیں کرتے۔‘‘


جیسے جیسے انسانی آفات بڑھتے جا رہے ہیں، راحت کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ تباہی کی ویڈیوز اور تصویریں ہماری روح کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ یہ ویڈیوز اور تصاویر کسی بھی حکمراں کو پریشان نہیں کرتیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ زندگیاں اہم ہیں، چاہے وہ آپ کی ہو یا میری!

میں اپنا یہ مضمون لبنانی شاعر، فلسفی، مبصر خلیل جبران کے ان الفاظ پر ختم کرتی ہوں اور آپ کو غور و خوض کے لیے چھوڑتی ہوں:

’’ایک دن تم مجھ سے پوچھو گے کہ کیا زیادہ اہم ہے؟ میری زندگی یا تمھاری؟ میں کہوں گا ’میری‘۔ اور تم یہ جانے بغیر چلے جاؤ گے کہ تم ہی میری زندگی ہو۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔