آئیے جانتے ہیں اسرائیل کی حقیقت، وہ کیسے وجود میں آیا؟

اسرائیلی عوام کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ حماس اتنی شدت کے ساتھ جوابی کارروائی کرے گا۔ حماس کی جوابی کارروائی کے بعد اسرائیل میں کافی دہشت ہے

اسرائیل کی حقیقت اور وہ کیسے وجود میں آیا؟ / Getty Images
اسرائیل کی حقیقت اور وہ کیسے وجود میں آیا؟ / Getty Images
user

سید خرم رضا

اسرائیل اور فلسطین کے مابین خونریز جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ تازہ اطلاعات ملنے تک 68 فلسطینی اور چھ اسرائیلی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں17 فلسطینی بچے بھی شامل ہیں۔ خبر ہے کہ اسرائیل کے حملوں میں حماس کا ایک سینیئر کمانڈر شہید ہو گیا ہے اور غزہ میں کئی بلند بالا عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔ اسرائیل کے ان حملوں کے جواب میں حماس نے راکٹ داغے ہیں جن کے نتیجے میں ابھی تک چھ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے مکمل جنگ کے خطرے کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران حماس نے اسرائیل کے جدید فوجی آلات کی پرواہ کیے بغیر اس پر 1500 سے زیادہ راکٹ داغے ہیں۔

اسرائیلی عوام کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ حماس اتنی شدت کے ساتھ جوابی کارروائی کرے گا۔ حماس کی جوابی کارروائی کے بعد اسرائیل میں کافی دہشت ہے، اس دہشت کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہودی دوسروں کی جان لینے سے تو گریز نہیں کرتے، لیکن اپنی جان جانے سے بہت ڈرتے ہیں۔ ادھر امریکی صدر جو بایئڈن نے اسرائیلی حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنی دفاع کا پورا حق ہے۔


گوگل پر موجود تازہ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی محض ایک کروڑ سینتالیس لاکھ ہے اور اس میں سے 67 لاکھ یہودی اسرائیل میں رہتے ہیں، جبکہ دوسرے نمبر پر یہودی جس ملک میں سب سے زیادہ رہتے ہیں وہ ہے امریکہ جہاں 57 لاکھ یہودی رہتے ہیں، یعنی یہودیوں کی بڑی آبادی دو ہی ممالک میں ہیں جس میں سے ایک خود اسرائیل ہے اور دوسرا امریکہ، اب شائد سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ کیوں امریکہ اسرائیل کے ہر غلط عمل کی حمایت کرتا ہے۔ یعنی دنیا کے ایک کروڑ سینتالیس لاکھ یہودیوں میں سے ایک کروڑ چوبیس لاکھ یہودی ان دو ملکوں میں رہتے ہیں۔ یعنی باقی 23 لاکھ یہودی دنیا کے دیگر ممالک میں رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے پوری دنیا میں یہودیوں کی آبادی ایک کروڑ 66 لاکھ تھی۔

آبادی کے تناسب کو سمجھنے کے بعد تھوڑا تاریخ کے اوراق پلٹ لیتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس خطے میں اس وقت عرب مسلمان اکثریت میں تھے اور یہودی اقلیت میں تھے۔ اس حقیقت کو نظر اند از نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت تک دونوں یعنی عرب مسلمان اور یہودی محبت سے رہتے تھے لیکن عربوں اور یہودیوں میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کو ذمہ داری دی کہ وہ یہودیوں کے لئے فلسطین میں ’قومی گھر‘ کی تشکیل کرے۔ قومی گھر کا ذکر شروع ہوتے ہی خطے میں تناؤ شروع ہو گیا۔


اس کے بعد اچانک اس خطے میں یہودیوں کی آ بادی میں بہت تیزی سےاضافہ ہو نے لگا اور 1920 کی دہائی سے لے کر 1940 کی دہائی کے دوران خطے میں آنے واے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے۔ طاقتور عیسائی ممالک کی ایما پر اور یہودیوں کے ’قومی گھر‘ کے نام پر سال 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ لیا۔ اس کے تحت طے ہوا کہ ایک ٹکڑا یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست، جبکہ یروشلم یعنی بیت المقدس دس سال کے لئے ایک بین الاقوامی شہر رہے گا۔ یہودیوں نے اس فارمولہ کو فورا تسلیم کر لیا لیکن عربوں نے اس فارمولہ کو مسترد کر دیا۔

اس کے بعد برطانوی حکمراں اس مسئلہ کو حل کیے بغیر سال 1948 میں خطہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک طرف یہ ہوا دوسری جانب یہودی رہنمائوں نے خطہ میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا اور یہ سب امریکہ کی شہ پر ہوتا رہا۔ یہودیوں کے اس فیصلہ کی فلسطینیوں نے مخالفت کی اور جنگ چھڑ گئی جو آج تک جاری ہے۔ اس جنگ میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا اور تقریباً ساڑے سات لاکھ عرب فلسطینیوں کو جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ اس واقعے کو النکبہ یعنی تباہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگلے برس جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اسرائیل نے زیادہ تر خطے کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔ اس سب میں جہاں پوری دنیا اسرائیلی جارحیت اور ظلم کے خلاف تھی وہیں اسرائیل کو طاقت ور ملک امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ اس جنگ کے بعد اردن نے جو خطہ حاصل کیا اسے ویسٹ بینک یعنی غربِ اردن کہتے ہیں اور مصر نے عزہ کی پٹی سنبھال لی۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا جبکہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔


سال 1967 میں جون کے پہلے ہفتہ میں چھ دن کی ایک اور جنگ ہوئی، جس میں اسرائیل نے کس طرح اردن کو ٹریپ کیا اور مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے ساتھ ساتھ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔ جس دن اسرائیل نے جیت حاصل کی اور پورے یروشیلم پر قبضہ کر لیا اس دن کو اسرائیل ’یوم یروشیلم‘ کے طور پر مناتا ہے اور اس دن وہاں قومی تعطیل ہوتی ہے۔ دراصل پہلے اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کر کے یروشیلم کو دس سال کے لئے بین الاقوامی شہر بنا دیا پھر 1967 میں اسرائیل نے جنگ کر کے پورے یروشیلم پر قبضہ کر لیا، جس کو عالمی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے، لیکن گزشتہ ایک سال سے امریکہ کے کہنے پر جس طرح اسرائیل کے ساتھ عرب حکمراں دوستی بڑھا رہے ہیں وہ اسرائیلی کوششوں میں کامیابی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

اس وقت جہاں ماہ رمضان کے دوران دس مئی کو یوم یروشیلم مارچ نکالنے کا پروگرام تھا اور سابقہ سالوں میں جس طرح یہودیوں نے پرانے شہر سے گزرتے ہوئے اشتعال انگیز نعرے لگائے تھے اس کی وجہ سےعرب فلسطینیوں میں غصہ تھا، ساتھ میں ان کو اس بات پر بھی غصہ تھا کہ متعدد فلسطینی خاندانوں کو مشرقی بیت المقدس میں ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا عدالت کا حکم تھا۔


اہم سوال یہ ہیں کہ اس خطے میں کب امن قائم ہوگا، فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا ہو گا، غربِ اردن میں یہودی بستیاں رہیں گی یا نہیں، کیا دونوں فریق بیت المقدس میں اکھٹے رہ سکتے ہیں یا نہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اتنی کم آبادی والا ملک کب تک اپنی منمانی کر تا رہے گا۔

کل ہم بتائیں گے کہ سرائیل چاہتا کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔