آج کے لیے بابا صاحب امبیڈکر کے سبق...سونیا گاندھی

بابا صاحب کی میراث کا احترام کرتے وقت ہمیں ان کی پیشن گوئی کو یاد رکھنا چاہیے کہ آئین کی کامیابی کا انحصار ذمہ داروں کے طرز عمل پر ہے، جبکہ اقتدار میں موجود حکومت اس کا غلط استعمال کر رہی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سونیا گاندھی

آج سے 132 سال قبل جدید ہندوستان کے معماروں میں سے ایک بابا صاحب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر پیدا ہوئے۔ ان کی شاندار زندگی آج بھی سب کے لیے ایک مستقل تحریک ہے۔ انہوں نے ایک ماہر معاشیات سے ایک فقیہ اور عالم کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا۔ وہ ایک معمولی پس منظر سے سیاست دان کے طور پر اٹھے اور انہوں نے غربت اور ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف جدوجہد کی۔ ایک سماجی مصلح کے طور پر انہوں نے زندگی بھر دلتوں اور دیگر تمام پسماندہ برادریوں کے لیے جدوجہد کی اور ایک سیاست دان، فلسفی کے طور پر انھوں نے ذات پات کے نظام کو مسترد کر دیا۔ اس کے بجائے انہوں نے آزادی، مساوات اور انصاف کے ساتھ بھائی چارے کی قدروں پر مبنی معاشرے کا تصور کیا۔

بابا صاحب نے نئے آزاد ہندوستان کے آئین کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے ملک اور اس کی بنیاد میں ان اقدار کو مضبوط کرنے کا موقع حاصل ہوا۔ جیسا کہ آج ہم بابا صاحب کی میراث کا احترام کرتے ہیں، تو ہمیں ان کی پیشن گوئی کو یاد رکھنا چاہیے کہ آئین کی کامیابی کا انحصار ذمہ دار لوگوں کے طرز عمل پر ہے۔ اقتدار میں موجود حکومت اس کا غلط استعمال کر رہی ہے اور اسے تباہ کر رہی ہے۔


آئین کے اداروں، آزادی اور مساوات کی بنیاد کو پامال کیا جا رہا ہے۔ بھائی چارہ اور انصاف بھی کمزور دکھائی دے رہا ہے۔ لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے قانون کے غلط استعمال سے آج آزادی خطرے میں ہے۔ نفرت اور پولرائزیشن کے ماحول میں بھائی چارہ ختم ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کو مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔ قوم کی تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں جمہوریت پر حملہ روکنا ہوگا۔ ہمیں آئین کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہوگا۔ تمام ہندوستانیوں، سیاسی جماعتوں اور انجمنوں کو اس نازک وقت میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی اور جدوجہد ایک اہم سبق سکھاتی ہے جو ایک رہنما کا کام کر سکتی ہے۔ پہلا سبق بھرپور بحث اور اختلاف ہے لیکن ہمیں قومی مفاد میں مل کر کام کرنا ہے۔

ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، ڈاکٹر امبیڈکر، سردار پٹیل اور بہت سے رہنماؤں کے درمیان شدید اختلاف کو ظاہر کرتی ہے۔ مباحثے قدرتی طور پر دلچسپی کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، ہمارے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ سوالات کے تناظر کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری آزادی کے لیے لڑنے والے تمام معزز مرد و خواتین نے کام کیا ہے۔ تمام ہندوستانیوں نے ہماری آزادی اور ہماری قوم کی تشکیل کے لیے مل کر کام کیا ہے۔


بحث و مباحثہ پر نظر ڈالنے سے معلوم چلتا ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر ایک حقیقی جمہوریت پسند تھے۔ وہ اپنے خیالات پر بحث کرتے اور بعض اوقات اختلاف کا اظہار کرتے اور اپنے اصولوں کا دفاع بھی کرتے۔ ضرورت پڑنے پر انہوں نے اپنا خیال بدل لیا۔ اپنی آخری تقریر میں انہوں نے خاص طور پر اپنے نظریاتی مخالفین سے اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام بحسن و خوبی تکمیل کو پہنچا اور اس کا سہرہ کمیٹی کے دیگر ارکان، ان کی ٹیم اور کانگریس پارٹی سبھی کے سر جاتا ہے۔ آج ہم سبھی اس کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ بابا صاحب کے آئین کے باوجود اتحاد مقصد کی اس روح کو یاد رکھنا چاہیے کہ اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔

دوسرا سبق بھائی چارے کے جذبے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو قوم کی بنیاد ہے۔ بابا صاحب ہندوستانیوں کے بھائی چارے کو پروان چڑھانے کی اہمیت پر گہرا یقین رکھتے تھے۔ بھائی چارے کے بغیر مساوات اور آزادی کی کوئی گہرائی نہیں ہے۔ اپنی آخری تقریر میں انہوں نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ ذات پات کا نظام معاشرے کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے اسے ملک دشمن قرار دیا۔ اس جملے کا غلط استعمال وہ لوگ کرتے ہیں جو آج اقتدار میں ہیں لیکن ڈاکٹر امبیڈکر نے ذات پات کے نظام کا صحیح مطلب سمجھا دیا۔


ذات پرستی ملک کے خلاف ہے کیونکہ یہ تقسیم، حسد اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔ یہ ہندوستانیوں کو ایک دوسرے کے خلاف تقسیم کرتی ہے۔ آج اصل ملک دشمن وہ ہیں جو تقسیم پیدا کرنے کے لیے اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ آج ہندوستانی مذہب، زبان، ذات پات اور جنس کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔ شکر ہے کہ حکومت کی کوششوں کے باوجود ہندوستانیوں میں بھائی چارے کا جذبہ بہت گہرا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں ہندوستانیوں نے ملک دشمن طاقتوں کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے مذہبی تقسیم، کسانوں کی روزی روٹی کے لیے آواز اٹھائی اور ان کی مدد کی۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا تیسرا سبق یہ ہے کہ سماجی اور معاشی انصاف کے لیے ہمیشہ جدوجہد کرنی چاہیے۔

انہوں نے ان تمام دلتوں، افراد اور برادریوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی جو پسماندہ تھے۔ آئین پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے لیے لچکدار اور وسیع ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر اپنی زندگی میں سماجی اور معاشی انصاف کے علمبردار تھے۔ آج سماجی انصاف کو یقینی بنانے کے چیلنجز نے ایک نئی جہت اختیار کر لی ہے۔ 1991 میں کانگریس کی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات سے خوشحالی میں اضافہ ہوا ہے لیکن اب ہم بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات دیکھیں گے۔ پبلک سیکٹر یونٹس کی اندھا دھند نجکاری کی جا رہی ہے۔ ریزرویشن کا نظام بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔