کلثوم سیانی: ایک پرجوش مجاہد آزادی اور بے لوث کارکن، برسی کے موقع پر خصوصی پیش کش
کلثوم سیانی نے نہ صرف مادر وطن کو نو آبادیاتی برطانوی نظام سے چھٹکارہ دلانے کی تحریک میں حصہ لیا بلکہ سماجی برائیوں کے خلاف بھی بگل بجایا
کلثوم سیانی نے نہ صرف مادر وطن کو نو آبادیاتی برطانوی نظام سے چھٹکارہ دلانے کی تحریک میں حصہ لیا بلکہ سماجی برائیوں کے خلاف بھی بگل بجایا۔ ان کے والد رجب علی پٹیل اور شوہر ڈاکٹر جان محمد سیانی بھی کانگریس پارٹی کے مخلص اور سرگرم رکن تھے۔
کلثوم سیانی 21 اکتوبر 1900 کو گجرات میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد رجب علی پٹیل نے مولانا آزاد اور مہاتما گاندھی کے ذاتی معالج کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔ جب مہاتما گاندھی جنوبی افریقہ سے وطن واپس آئے تو 1917 میں کلثوم سیانی اپنے والد کے ساتھ مہاتما گاندھی سے ملنے گئیں۔ اس ملاقات کا کلثوم سیانی پر ایسا جادوئی اثر ہوا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی ملک و قوم کے لیے وقف کر دی اور تحریک جدوجہد آزادی کی حصہ لینے کے ساتھ ساتھ سماجی اصلاحات کے لیے بھی جدوجہد کرتی رہیں۔ انہوں نے خصوصاً پردہ نشین خواتین کی خواندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
کلثوم سیانی کے نزدیک تمام پریشانیوں کی جڑ جہالت تھی اور تعلیم ملک کی ترقی اور خوشحالی کے حصول کے لیے ایک موثر ہتھیار ہے۔ چنانچہ انہوں نے 1938 میں خواندگی کے مشن کا آغاز صرف 100 روپے کی سرمایہ کاری سے کیا۔ کلثوم سیانی نے دو اساتذہ کے ساتھ علم کی شمع کو روشن کرنے کے لیے کوچہ کوچہ اور گھر گھر جا کر خواتین کو سمجھایا کہ پڑھنا سیکھنا کتنا ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں 400 سے زائد خواتین پڑھنے سیکھنے کے لیے آگے آئیں۔
ان کی انتھک کوششوں کو دیکھتے ہوئے انہیں 1939 میں بمبئی سٹی سوشل ایجوکیشن کمیٹی نے مسلم خواتین کے لیے تشکیل دیے گئے 50 مراکز کی ذمہ داری سونپی۔ جن کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ کر 600 تک پہنچ گئی۔ تاہم ان کی کاوشیں صرف مسلم کمیونٹی تک محدود نہیں تھیں۔ وہ 1944 میں آل انڈیا ویمنز کانفرنس کی جنرل سکریٹری بھی مقرر ہوئیں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کیا۔
انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے ’جن جاگرن‘ پروگراموں میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ کے رہنما ان کی سرگرمیاں کو برداشت نہ کر سکے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ غریبوں کو انڈین نیشنل کانگریس کی طرف راغب کر رہی ہیں۔ اس مخالفانہ ماحول کے باوجود وہ پیچھے نہیں ہٹیں بلکہ اپنی سرگرمیاں مزید تیز کر دیں۔ کلثوم سیانی نے پندرہ روز جریدے ’رہبر‘ کے ذریعہ گاندھی جی کے ہندوستانی زبان کے نصب العین کو آگے بڑھایا۔ یہ واحد جریدہ تھا جو تین رسم الخط میں شائع ہوتا تھا، یعنی اردو ہندی اور گجراتی۔
گاندھی جی نے 16 جون 1945 کو لکھے خط میں سیانی کو بیٹی کلثوم سے مخاطب کرتے ہوئے ان کی کاوش کو سراہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا ’’مجھے رہبر کا مشن ہندی اور اردو کو متحد کرنا پسند ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ کامیاب ہو۔‘‘
کلثوم سیانی نے مختلف مذاہب کے لوگوں کو قریب لا کر انہیں مختلف ثقافتوں سے روشناس کرانے کے لیے بمبئی گاندھی اسمارک میں بین المذاہب میٹنگیں کرنا بھی شروع کی تھیں۔ حکومت ہند نے سیانی کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے 1959 میں 'پدم شری' اور 1969 میں نہرو لٹریسی ایوارڈ سے نوازا۔ انہوں نے بیرون ممالک میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی اور مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں لکھیں۔
مادر ہند کی آزادی، خواتین اور معاشرے کی مجموعی ترقی کے لیے لڑنے والی دلیر بیٹی کلثوم سیانی 27 مئی 1987 کو انتقال کر گئیں لیکن وہ اپنے کارناموں کے سبب ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔