کلدیپ نیر: ایک عہد ساز جو نہ رہا!... ظفر آغا

جس وقت پاکستان کے ساتھ امن و آشتی کا ذکر گناہ تھا تب کلدیپ نیر لوگوں کو اکٹھا کر واگھہ پر جا کر اس امید میں شمع روشن کرتے تھے کہ ایک دن ضرور آئے گا جب ہند و پاک میں امن کا پرچم لہرائے گا

کلدیپ نیر- Getty Image
کلدیپ نیر- Getty Image
user

ظفر آغا

ایک عہد تھا جو گزر گیا! جی ہاں، کلدیپ نیر ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ایک دور بھی ختم ہو گیا۔ جیسے اب کلدیپ نیر لوٹ کر نہیں آئیں گے ویسے ہی اب وہ عہد بھی واپس نہیں آ سکتا جس میں کلدیپ نیر جیے۔ یوں تو جو دور گزر جاتا ہے وہ تاریخ ہی بن جاتا ہے اور لوٹتا نہیں، لیکن کلدیپ نیر جس دور میں جیے اس دور کی دو اہم باتیں تھیں جو ان کے ساتھ ختم ہوئیں۔ پہلی اہم بات کلدیپ نیر کی یہ تھی کہ وہ ہندوستان کے بٹوارے سے لے کر نریندر مودی کے عروج تک کے تاریخ ساز عہد کے چشم دید گواہ تو تھے ہی بلکہ انھوں نے اس عہد کو اپنے قلم سے رقم بھی کیا۔ وہ زندگی بھر صحافی رہے اور ایماندار صحافی رہے۔ ظاہر ہے کہ ان سے بہتر اور کون اس عہد کی داستان اور اس کی اچھائی برائی کو رقم کر سکتا تھا۔ انھوں نے یہ کام بدرجہ اتم کیا اور ان کے انتقال کے بعد بھی صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر میں اور دنیا بھر میں اس کا ڈنکا بج رہا ہے۔

کلدیپ نیر کی دوسری سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ وہ ہمیشہ حق کے لیے کھڑے رہتے تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ جہاں حق وہاں کلدیپ نیر۔ اس سے بھی اہم بات جو ان کی شخصیت میں مضمر تھی وہ یہ تھی کہ وہ بطور حق پسند صحافی محض حق و انصاف کے لیے قلم تراش ہی نہیں رہتے تھے بلکہ وہ حق کی لڑائی میں صف اول کے سپاہی کا رول بھی ادا کرتے تھے۔ ا فسوس کہ کلدیپ نیر کے بعد حق کی لڑائی لڑنے والوں کا قحط رجال نظر آتا ہے۔ ہم اب اسی منحوس دور میں جی ر ہے ہیں۔ اس دور میں پہلے تو صحافت ہی ختم ہو گئی، اب صحافی صحافی نہیں بلکہ قصیدہ گو ہو چکے ہیں جو اس دور کے حاکموں کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں، صحافت نہیں کرتے۔ ایسے دور میں دوسرا کلدیپ نیر ڈھونڈے سے بھی میسر نہیں۔

کلدیپ نیر جیسی ہمہ جہت شخصیت کی کس کس پہلو کا ذکر ہو۔ ابھی پچھلے برس یوم آزادی کے موقع پر میں ان کی خدمت میں یوم آزادی پر انٹرویو کے لیے حاضر ہوا۔ کمزور ہو چکے تھے۔ لیکن ان کی آواز ویسی ہی بلند و بالا۔ بات چیت شروع ہوئی... جناح، گاندھی، نہرو، بٹوارے کے ہولناک قصے اور بٹوارے کی اس مار کاٹ کے دوران ان کا سیالکوٹ (جو پاکستان میں چلا گیا) سے ہندوستان میں دہلی تک کا سفر، یہ ساری باتیں وہ ایسے کر رہے تھے جیسے کہ وہ اس دور کو جی رہے ہوں۔ پھر انٹرویو کا سلسلہ مودی کے دور تک پہنچ گیا۔ اس قدر مایوسی کا عالم کلدیپ نیر جیسے پرامید شخصیت کے چہرے پر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بات کرتے کرتے بولے ’’آج جو نفرتیں ہیں ویسی نفرتیں بٹوارے کے وقت بھی نہیں تھیں‘‘۔ میں نے پوچھا کیوں! بے ساختہ بولے ’’ارے بھائی، اس وقت گاندھی اورجواہر لال جیسے سنبھالنے والے بھی تو تھے۔‘‘ اب ذرا اس دور کا المیہ ملاحظہ فرمائیے، جس دور میں کلدیپ نیر بھی نہ رہا اور صرف مودی ہی نظر آئے تو وہ دور بٹوارے سے بھی زیادہ خطرناک نہ ہوگا تو پھر کیا ہوگا!

کیا شخص تھا جناب جس کا نام کلدیپ نیر تھا! ارے اس ملک میں جس وقت پاکستان کے ساتھ امن و آشتی کا ذکر گناہ تھا تب وہ لوگوں کو اکٹھا کر واگھہ بارڈر پر جا کر اس امید میں شمع روشن کرتے تھے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ جب ہند و پاک میں امن کا پرچم لہرائے گا۔

بڑے اتار چڑھاؤ آئے لیکن کلدیپ نیر نے ہار نہیں مانی۔ مرتے دم تک 14 اگست کی شام ہند و پاک بارڈر پر دونوں ملکوں کے امن خواہان سرحد کے دونوں جانب کلدیپ نیر کی قیادت میں شمع جلاتے رہے۔

بابری مسجد گری، ایسا لگتا تھا کہ اب اس ملک میں مسلمان کا کوئی آسرا نہیں رہا۔ جناب دہلی میں اس وقت کلدیپ نیر مسلم اقلیت کے لیے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ کبھی کسی محفل میں مسلمان کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں تو کبھی کسی جلوس میں احتجاج کر رہے ہیں، بلکہ میں نے تو یہ محسوس کیا کہ انھوں نے بابری مسجد سانحہ کے بعد سے مسلم محفلوں میں اٹھنا بیٹھنا بڑھا دیا۔ یوں تو وہ مسلم صحبت کے بغیر جی نہیں سکتے تھے، لیکن ان کو اس بات کا احساس اس شدت سے تھا کہ اب اس ملک میں مسلم اقلیت کافی غیر محفوظ ہے تب ہی وہ اب ان محفلوں میں خصوصاً نظر آنے لگے۔ اور واقعی ان کو دیکھ کر حوصلہ ملتا تھا۔ ارے وہ گجرات ہو یا موب لنچنگ، کلدیپ نیر ہر جگہ کھڑے نظر آتے تھے۔

افسوس کہاں سے پائیں اس گہر کو جو اب نایاب ہو گیا۔ عالم یہ تھا کہ تقریباً ڈیڑھ دو سال سے وہ وہیل چیئر پر آ چکے تھے۔ اس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہو چکے تھے۔ لیکن کوئی چھ ماہ قبل کا ذکر ہے کہ این ڈی ٹی وی کے دہلی دفتر پر انکم ٹیکس ریڈ ہوئی۔ مودی حکومت این ڈی ٹی وی سے ناراض تھی، اس کو خاموش کرنے کے لیے دباؤ تھا۔ پریس کلب آف انڈیا میں صحافیوں کی اس معاملے پر احتجاجی میٹنگ منعقد ہوئی۔ جناب وہیل چیئر پر بیٹھے کلدیپ نیر چلے آ رہے ہیں۔ تالیوں سے ان کا خیر مقدم ہوا۔ کیا تقریر کی۔ وہی ہمت افزائی، دیکھو ڈرنا مت، یہ وقت چٹکیوں میں گزر جائے گا۔ ایسے حاکم آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، حق و انصاف برقرار رہتا ہے۔ سارے مجمع میں ایک کلدیپ نیر نے حوصلے کی لہر پھونک دی۔

کلدیپ نیر ایک صحافی تھے، ایک سپاہی تھے۔ وہ ہمہ تن حق و انصاف کی داستان اور حق کے لیے ہمیشہ شمشیر تھے۔ وہ خود اپنے میں ایک دور تھے اور اس دور کے دورساز بھی تھے۔ کلدیپ کیا گئے کہ حق و انصاف کے مجاہدوں کا حوصلہ بھی گیا۔ کیا کہیں اور کیا لکھیں! بس یوں سمجھیے کہ ’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Aug 2018, 9:59 AM