کرناٹک انتخابات: صرف عوامی مدعوں کی جیت نہیں بلکہ فرقہ پرست سیاست کی زبردست شکست

کرناٹک کے نتائج نے بی جے پی کو نہیں ہرایا بلکہ 2024 کے عام انتخابات کے لئے جمہوریت اور حزب اختلاف کے دروازہ کھلا رکھا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

سید خرم رضا

ہندوستان کے عوام بالخصوص ملک کی  اقلیتوں کو کرناٹک انتخابات کے نتائج  کا بڑی بے صبری  سے انتظار تھا  اور کیوں نہ ہوتا کیونکہ ان کے نتائج کا قومی سیاست پر کھل کر اثر  ہونا تھا۔ ملک کی اقلیتوں کو اس لئے تھا کیونکہ یہاں حجاب،  ٹیپو سلطان، حلال، جھٹکا ، اذان  اور اب آخر میں بجرنگ بلی  کو انتخابی مدعا بنانے کی بھرپور کوشش کی  لیکن کرناٹک کی عوام نے ان مدعوں کامنہ توڑ جواب دیتے ہوئے خود کے  یعنی عوامی مدعوں کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور ریاست میں بر سر اقتدار جماعت کو اقتدار سے بے دخل کیا ۔

ہر شخص اور مبصر اپنے انداز سے کرناٹک اسمبلی کے نتائج کو بیان کرے گا لیکن بہت سی وجوہات ہیں جن کے ایک جگہ جمع ہونے سے کانگریس کو یہ کامیابی ملی ہے جس نے ملک کی حزب اختلاف کے لئے2024کے عام انتخابات کے لئے دروازہ کھلا رکھا ہے،   کیونکہ اگر کسی وجہ سے بی جے پی کو کرناٹک میں کامیابی مل جاتی تو جب تک ملک میں  سیاسی طور پر کچھ  بڑا نہیں ہوتا تب تک کے لئے یہ دروازہ بند ہی رہتا اور سیاسی پارٹیوں اور ملک کے عوام کو بہت حد تک سمجھوتہ کرنا پڑتا۔ ان نتائج کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ملک میں جمہوریت  کا راستہ  کھلا رکھا  ہے اور حزب اختلاف کے لئے 2024 کے عام انتخابات کے لئے دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔


ان نتائج سے دوسرا بڑا اشارہ یہ ملا ہے کہ وزیر اعظم مودی جن کے بارے میں یہ کہا جانے لگا تھا کہ وہ اپنی کرشمائی قیادت اور خطاب کے ذریعہ کسی بھی انتخاب کو بی جے پی کے حق میں کر دیتے ہیں لیکن کرناٹک میں ایسا بالکل نہیں ہوا اور یہاں مودی اور شاہ دونوں ہی ناکام نظر آئے۔ یہ بھی  حقیقت ہے کہ کانگریس نے بی جے پی کو حال ہی میں ہماچل پردیش میں ہرایا تھا اور اس سے پہلے چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہرایا تھا جبکہ عام آدمی پارٹی نے پنجاب  و دہلی میں اور علاقائی پارٹیوں نے اپنے اپنے صوبوں میں بی جے پی کو شکست سے دو چار کیا تھا  لیکن پھر بھی جو ذرائع ابلاغ نے ان کی شبیہ بنائی ہوئی تھی  کرناٹک عوام نے اس   شیشے پر سے گرد ہٹا دی ہے اور تصویر بالکل صاف کر دی ہے۔

ویسے تو انتخابی مہم کی ابتداء میں ہی بی جے پی نے حجاب ، ٹیپو سلطان ، حلال، جھٹکا اور اذان جیسے مدعوں سے خود کو دور رکھا تھا لیکن ان سے دوری بنانے کی وجہ تھی کرناٹک کے عوام کی بڑھتی فرقہ پرستی کے خلاف ناراضگی اور اس فرقہ پرستی کی آگ اور آ ڑ  میں عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھنا ۔ اس میں بہت  بڑا کردار اس تبسم شیخ کا  بھی ہے جس  کو حجاب کی وجہ سے تعلیم کو کچھ وقت کے لئے چھوڑنا پڑا لیکن اسی تعلیم کو ترجیح دیتے ہوئے اس نے نہ صرف کرناٹک کے آرٹس شعبے میں پوری ریاست میں 600 میں سے 593 نمر لاکر ٹاپ کیا  بلکہ اپنی اس کامیابی کے بعد جس پر اعتماد انداز میں سوالوں کے جواب انگریزی میں دئے اس نے ریاست کی فرقہ پرست سیاست پر کراری ضرب لگایا ۔ تبسم شیخ کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے ریاست کی بی جے پی کو پیر پیچھے کھینچنے پڑے۔


فرقہ پرست سیاست پر پیر کھینچنے کے باوجود جب بی جے پی کو اپنی زمین کھسکتی نظر آئ تو بی جے پی کے اعلیٰ رہنما یعنی قومی وزیر اعظم نے بجرنگ بلی کے مدعے پر ایسے چناؤ  لڑنے کی کوشش کی جیسے عوام کے لئے سب سے بڑا مدعا یہی ہے لیکن کرناٹک کے عوام نے اس مدعے کو گردانا ہی نہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے لئے کرناٹک انتخابات اتنے اہم ہو گئے تھے کہ انہوں نے ملک کے سامنے درپیش دیگر مسائل کو بھی ٹھنڈے بستے میں  ڈالنے کی کوشش کی اور شائد  یہ ان کی بڑی غلطی تھی۔

مرکزی حکومت نے جہاں منی پور کے حالات پر پہلے سے نظر نہیں رکھی جس کی وجہ سے وہاں بھی دو گروپوں کے بیچ فساد ہوا  جس کا بڑا فائدہ حزب اختلاف کو ملا ۔ ساتھ میں انہوں نے جنتر منتر پر مظاہرہ کرنے والے اور ملک کا نام روشن کرنے والے پہلوانوں کے مطالبات کو نظر انداز کیا  اس نے بھی بی جے پی کی شبیہ کو بہت خراب کیا جس کا اثر نتائج میں واضح نظر آیا ۔  کرونی کیپیٹل ازم  یعنی دوستانا سرمایہ کاری کے مدعے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا  اور اس میں کوئی دو رائے نہیں  کہ ہنڈن برگ رپورٹ نے کانگریس کے اس حملہ میں تڑکا لگایا  جس کا واضح نقصان مودی اور بی جے پی کو  انتخابات میں ہوا۔


اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کانگریس نے بہت مدت کے بعد متحد ہو کر چناؤلڑا اور کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے جو اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران محبت اور اتحاد کا پیغام دیا تھا  یہ اس کا واضح ثبوت ہے ۔ کانگریس صدر  کھڑگے جن کا تعلق کرناٹک سے ہے  انہوں نے  اور کانگریس کے اعلی قیادت نے مقامی رہنماؤں کو پوری چھوٹ نہ صرف انتخابی مہم چلانے میں دی  بلکہ منشور میں کیا ہونا چاہئے اور کیا نہیں ہونا چاہئے۔ راہل گاندھی نے نہ صرف بھارت جوڑو یاترا کے دوران سے ہی کرناٹک میں اتحاد کا پیغام دینا شروع کر دیا تھا بلکہ انہوں نے عوامی مدعوں پر چناؤ لڑنے پر زور دیا ۔ ان کی اس حکمت عملی کی وجہ سے کانگریس نے جو ’عوامی گارنٹیوں‘ کا علان کیا اور ایل پی جی و چالیس فیصد بد عنوانی کو انتخابی مدعا بنایا اس نے کانگریس کی جیت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ پرینکا گاندھی کا انتخابی ریلوں میں شرکت  کرنا اور ان کے ذریعہ کہی گئی باتوں کا ان نتائج پر زبر دست اثر پڑا۔

کانگریس نے جہاں متحد ہو کر شاندار چناؤ لڑا اور بی جے پی میں بکھراؤ نظر آیا  وہیں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عوام کا پیٹ جذباتی ار مذہبی مدعوں سے نہیں بھرتا بلکہ اس کو اپنے بنیادی مدعوں کا حل چاہئے ہوتا ہے جس کا یقین کانگریس نے ان انتخابات میں  کرناٹک کے عوام کو دلایا ۔ یہ واضح ہے کہ یہ نتائج عوام مدعوں کی تو جیت ہے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ فرقہ پرست سیاست کی شکست ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 May 2023, 7:11 AM