آہ کمال خان! تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی... سید حسین افسر
مرحوم کمال خاں کی صحافتی زندگی کچھ ہندی کے کٹر اور متعصب اخبارات کے ارد گرد بھی کسی زمانے میں گھومتی نظر آئی لیکن وہاں بھی انہوں نے خود کو بچائے رکھا۔
مسکراتا لیکن رعب دار چہرہ، گفتگو میں نرمی، مذکرات میں کشش، انداز بیان میں کھلاپن۔ یہ تھے صحافیوں کے صحافی کمال خاں۔ اپنے کام میں ایماندار، اپنی فکر میں غیر جانبدار اور ان کے طور طریقوں میں اپنائیت تھی۔ ہم ان کو گزشتہ بیس برس سے زیادہ عرصہ سے جانتے پہچانتے اور مانتے تھے۔ ان کے کام کرنے کے انداز میں ان کا ’ہوم ورک‘ صاف جھلکتا تھا۔ کڑوی سے کڑوی بات کو انتہائی نرمی اور سلجھے ہوئے انداز سے پیش کرنے کا کمال ان کو خوب حاصل تھا۔ ملک اور ریاست کے دلخراش حالات میں بھی وہ دیگر صحافیوں کی طرح اپنا آپا نہیں کھوتے تھے۔ وہ خبروں کی تہہ اور اس کے پس منظر کو خوب ٹھوک بجا کر پیش کرتے تھے۔ حکومت وقت کی دھونس اور کسی بھی لالچ سے وہ کوسوں دور تھے۔ اجودھیا، متھرا اور کاشی جیسے موضوعات پر بھی وہ بے باکی، جرأت کا مظاہرہ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : سینئر صحافی کمال خان کے انتقال پر پرینکا گاندھی کا اظہار غم
کمال خان کی رپورٹنگ میں ان کی زبان، ثقافت اور تمدن کی پوری جھلک نظر آتی تھی۔ وہ کبھی غالب کے شعر نقل کرتے تو کبھی کبیر کے دوہے پڑھ کر اپنی رپورٹ کو مزید دلچسپ بنا دیتے تھے۔ ملک کا ماحول جس میں ’گودی میڈیا‘ نے جنم لیا اور صحافیوں کی اکثریت نے جس جانبداری کا مظاہرہ کیا اور حکومت وقت کے مقرب خاص بنے رہے، کمال خاں ان سب تعصبات اور فکری بے ایمانی سے مستثنیٰ و مبرا نظر آتے تھے۔
مرحوم کمال خاں کی صحافتی زندگی کچھ ہندی کے کٹر اور متعصب اخبارات کے ارد گرد بھی کسی زمانے میں گھومتی نظر آئی لیکن وہاں بھی انہوں نے خود کو بچائے رکھا۔ یہ این ڈی ٹی وی کے مالکان کا کمال تھا کہ انہوں نے اس زر خرید زمانے میں ایسے صحافیوں کو اپنی ٹیم میں رکھا جو نہ فروخت ہو سکتے تھے اور نہ ہی ڈر کر چاپلوسی کر سکتے تھے۔ چینلوں کی اس جنگ میں جہاں صحافیوں کی ایک بڑی ٹکڑی مذہبی تعصبات سے لیس ہے، کمال نے کبھی اپنا دین ایمان اور مذہب سے متعلق خبروں کو فوقیت نہیں دی۔ ان کا نقطۂ نظر واضح تھا، ان کا مرکز و محور ایماندارانہ، جرأت مندانہ اور غیر جانبدارانہ صحافت تھا۔
یہ بھی پڑھیں : کمال نہیں مر سکتا!...سید خرم رضا
کمال خاں سے ہماری جان پہچان نے اس وقت شدت اختیار کر لی جب بہت سے مسائل اور موضوعات کے علاوہ اُردو زبان کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی تھی۔ وہ ہندی بیک گراؤنڈ کے صحافی تھے لیکن ان کے حافظے میں اُردو کے لاتعداد اشعار محفوظ تھے۔ ان کا کمال ہی یہی تھا کہ تلخ مباحث میں بھی وہ اُردو اشعار کی شیرینی سے اپنی گفتگو کو مزید دلچسپ بنا دیتے تھے۔ ان میں ملنساری، شرافت، ہمدردی اور گنگا جمنی تہذیب و تمدن ان کا طرۂ امتیاز تھا وہ لپک کر ملتے اور بڑے تپاک سے خیر و عافیت دریافت کرتے۔ وہ صحافتی موضوعات کے علاوہ گھریلو معاملات پر بھی بات چیت کرتے اور یہی وجہ تھی کہ وہ صحافتی برادری میں بڑی عزت سے دیکھے جاتے تھے۔ کمال خاں کچھ صحافیوں کی ذاتی پریشانیوں کو بھی حل کرنے کی ہمہ وقت کوشش کرتے اور اگر ان کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان کا کوئی رشتہ دار، دوست اور ہم پیشہ کسی مصیبت میں مبتلا ہے تو وہ حتی المقدور اس کو حل کرنے کی کوشش کرتے۔ ہمارے علم میں ہے کہ کمال خاں بہت خاموشی و انکساری سےعزیز واقارب کی تن من دھن سے مدد کرتے تھے۔ مریضوں کے علاج اور بے سہارا بچوں کی تعلیم کی انہیں فکر رہتی تھی۔ وہ صحافتی زندگی میں اپنے ذاتی فائدے کے لیے سرکاروں اور سیاسی پارٹیوں کے لیڈران سے بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے سرکاری مشینری کا استعمال صرف مستحقین کے لیے ہی کیا۔
کمال خاں کے انتقال سے صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا انتہائی مشکل ہے۔ ایسے صحافی کم ہوتے جا رہے ہیں جو بااُصول صحافت کو اپنا مطبع نظر بنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ کمال خاں کو عوامی سطح پر بہت شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ متعدد انعامات اور اعزاز سے وہ سرفراز کیے گئے جن میں گوینکا جیسا ایوارڈ بھی شامل ہے۔ افسوس کہ کمال خاں 14 جنوری بروز جمعہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
یہ سچ ہے کہ کمال خاں جیسے انسان اور صحافی برسوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ کمال خاں جیسا بننا واقعی کمال کی بات ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔