مذہبی صحیفوں میں موجود ضابطوں کے برعکس ہے ’استھی کلش یاترائیں‘... مرنال پانڈے

پُرانوں میں کہا گیا ہے کہ مردہ کے باقیات کو ایک ’کلش‘ میں ڈال کر اس کے منھ کو بند کر دینا چاہیے اور گنگا یا کسی ندی میں ایک ساتھ بہا دینا چاہیے۔ یہ عمل مردہ کے رشتہ دار یا قریبی کو ہی پورا کرنا چاہیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

گزشتہ کچھ سالوں میں، خصوصاً گودھرا کے بعد سیاسی پارٹیوں نے اپنے کارکنان کا جوش بڑھانے کے لیے اور ووٹوں کو مضبوط کرنے کے لے بڑے پیمانے پر ’استھی کلش یاتراؤں‘ کو منعقد کرنے کا کام شروع کیا۔ ان یاتراؤں کے دوران سجی ہوئی گاڑیوں میں عزت مآب مہلوک کی استھیاں لے جائی جاتی ہیں۔ وقتاً فوقتاً استھیوں کو خصوصی ٹرینوں کے ذریعہ دور دراز کے علاقوں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ مقامی پارٹی دفاتر میں انھیں آخری دیدار کے لیے رکھا جا سکے۔ پاک ندی میں اسے بہانے سے قبل استھیوں (باقیات) کو پورے شہر میں گھمایا جاتا ہے اور اس طرح سے موت کے ارد گرد ایک طرح کی ڈرامائیت کو فروغ دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں احساس غم پیدا کیا جا سکے اور بدلہ لینے کی غیر اعلانیہ امیدوں کو بھی تیز کی جا سکے۔

ہندوستان میں روایتی طور سے موت کو انسانی زندگی کی ایک ناقابل یقین اور خطرناک رخنہ کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔ جیسے ہی مہلوک کا جسم استھیوں میں تبدیل ہو جاتا ہے ویسے ہی اس کی روح سے دنیاوی انسلاک ختم ہو جاتے ہیں۔ روایت یہ کہتی ہے کہ پاکیزہ پانی میں اور ہو سکے تو پاک گنگا ندی میں جلد سے جلد استھیوں کو بہا دینا چاہیے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ استھیاں ’تامسک‘ (برے اثرات سے بھری) ہوتی ہیں جسے مہلوک کی روح چھوڑ جاتی ہے۔

ایسا ماننا ہے کہ یہ ’تمس‘ عنصر بری چیز کو اپنی جانب کھینچتا ہے اور اس کا اثر ان سبھی لوگوں پر پڑتا ہے جو اسے سنبھالتے ہیں۔ اس لیے آخری رسوم ادا کرنے والے اور استھیاں لینے والے 10 دنوں تک الگ تھلگ رہتے ہیں۔ ناپاکی کی حالت میں رہنے کے دوران وہ بقیہ لوگوں سے دور ہی رہتے ہیں۔ بہتے ہوئے پانی میں استھیوں کو بہانے کا اصل مقصد زندہ شخص کو پاک کرنا اور ’تمس‘ یا بری چیز کو بے عمل کرنا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یہ کیا جاتا ہے اس کے بعد مہلوک کی اس زمین سے جڑی روح بعد از مرگ کی پرامن زندگی کی جانب بڑھ جاتی ہے۔

موت انسانی زندگی کا سب سے بڑا خوف ہے۔ لیکن سبھی مذہب یہ مانتے ہیں کہ جو بھی پیدا ہوتا ہے اسے مرنا ہوتا ہے۔ اور آخری طور پر ہم سبھی کو دھول یا مٹی میں تبدیل ہو جانا ہے۔ اور جتنی جلدی دھول عنصر میں مل جائے اتنا بہتر ہے۔ شاستروں (صحیفوں) میں یہ یقین کے ساتھ کہا گیا ہے کہ موت یا ضعیفی کو قطعی شکست نہیں دی جا سکتی۔ اور موت کے بعد سب سے بہتر خواہش سبھی بلاؤں (تمس) سے پاک ایک پاکیزہ روح کی شکل میں جنت کی طرف گامزن ہونا ہے۔ شکر یجُروید اسے کافی صاف گوئی کے ساتھ پیش کرتی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے... جسم پانچ عناصر سے بنا ہے: ہوا، آگ، پانی، زمین اور آخری رسوم کے بعد بھسم میں بدل جاتی ہے۔ آخر کار فرد کی صرف یاد اور قربانی باقی رہ جاتی ہے۔

’اشولاین گرہ سوتر‘ کے مطابق آخری رسوم کے بعد طاق نمبر میں فیملی کے بزرگ استھیوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور مٹی کے برتن میں ٹھیک سے ڈھک کر رکھ دیتے ہیں تاکہ مہلوک کے ذریعہ چھوڑ کر گئے ناپاک اثرات اور برائی کو اندر رکھا جا سکے اور جیسے ہی یہ آخری باقیات خاموشی کے ساتھ اور آرام سے بہائی جاتی ہیں مہلوک بعد از مرگ کا اپنا سفر شروع کر سکتا ہے۔ اس کے بعد جو لوگ بھی اس عمل میں شامل ہوتے ہیں انھیں روز مرہ کی زندگی کی سرگرمی شروع کرنے سے قبل غسل کر کے جسم کی سبھی ناپاکی کو دھونے کے لیے کہا جاتا ہے۔ نرنے سندھو (صفحہ 586)، انوشٹھان پرو (32/26) اور وشنو دھرم سوتر (12-11/19) بھی اس نظریہ کی حمایت کرتا ہے کہ جیسے ہی استھیوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے مہلوک کے باقیات کو ایک کلش میں ڈال دینا چاہیے اور کلش کے منھ کو بند کر دینا چاہیے اور سبھی استھیوں کو گنگا یا کسی دیگر ندی میں ایک بار میں بہا دینا چاہیے۔ پُرانوں میں کہا گیا ہے کہ جو مردہ کا روایتی یا باضابطہ رشتہ دار ہوگا، اسے ہی باقیات کو ندی میں بہانا چاہیے۔

آخری رسوم کی جگہ پر کلش کے اوپر سمادھی بنانے کے بارے میں شت پتھ برہمن (4-2/8/13) کہتا ہے کہ اس طرح کی رسم ’اَسُروں‘ میں ہوتی ہے لیکن فیملی کی خواہش ہے تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن استھیوں والے کلش کو مکان کے اندر نہیں لے جانا چاہیے اور آخری دیدار کے لیے نہیں رکھنا چاہیے۔ اسے ایک درخت کے نیچے رکھ دینا چاہیے جب تک سمادھی بن نہیں جاتی۔ اس کے بعد موت کے دیوتا یَم سے دعا کی جائے اور سمادھی استھل میں استھیوں کو دفنانے کی اجازت طلب کی جائے۔ برتن کو دفنانے کے بعد سمادھی کو مٹی سے برابر کر دینا چاہیے۔ پھر اس پر جو کے بیج اور یوکا کے کانٹے لگا دینے چاہئیں تاکہ کلش نظر نہ آئے اور مٹی بھی نم رہے۔

بہت سارے لیڈر اور تاجر ان لوگوں کے اس طویل تجربہ کو نظر انداز کرتے ہیں جنھوں نے یہ ضابطے بنائے۔ وہ جتنے بھی مشکل لگتے ہوں، درحقیقت ان قدیم صحیفوں میں آخری رسوم یا دفنانے کا قانون انسانی زندگی کی گہری سمجھ، تعزیت اور رحم سے آتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔