صحافیوں نے بتا دیا کہ وہ ڈرنے والے نہیں ہیں
صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر نیوز کلک کے خلاف کچھ الزامات ہیں تو ان کی جانچ ہونی چاہیے لیکن صحافیوں کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے لگانے کا کیا جواز ہے؟
جب تین اکتوبر کو صبح صبح صحافتی حلقوں میں یہ خبر پھیلی کہ دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے اہلکاروں نے ایک معروف میڈیا ادارے نیوز کلک کے دفاتر اور اس سے وابستہ صحافیوں اور کارکنوں کے گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے ہیں اور ان کے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک آلات ضبط کر لیے گئے ہیں تو پورے ملک کے صحافتی حلقوں میں ایک سنسنی دوڑ گئی۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ اب تک انفرادی طور پر صحافیوں کے خلاف کارروائی ہو رہی تھی یہ پہلا موقع تھا جب اجتماعی طور پر کارروائی ہوئی۔ دھیرے دھیرے یہ خبر یوں پھیلتی گئی کہ متعدد بڑے اور سینئر صحافیوں کو اور نیوز کلک کے بانی ایڈیٹر کو پولیس کے اسپیشل سیل کے ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا ہے تو صحافتی حلقوں میں تشویش کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آنے لگا۔
شام کے وقت تک جب یہ معلوم ہوا کہ ابھیسار شرما، ارملیش، پرانجے گوہا ٹھاکرتا اور نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ کو نہ صرف یہ کہ دن بھی بٹھائے رکھا گیا بلکہ ان لوگوں سے ایسے سوالات کیے گئے جن کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا تو صحافیوں کے غصے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ رات تک یہ خبر بھی آگئی کہ پربیر پرکایستھ اور ادارے کے ایک اور اہم ذمہ دار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اگلے روز انھیں سات روز کی پولیس ریمانڈ میں دے دیا گیا۔ صحافیوں کے غصے میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ جن صحافیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ان لوگوں پر دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے جس میں جلد ضمانت نہیں ہوتی۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ یو اے پی اے تو انسداد دہشت گردی کا قانون ہے اور انتہائی سخت ہے وہ صحافیوں پر کیوں لگایا گیا۔ کیا صحافی دہشت گرد ہو گئے ہیں اور کیا وہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ دراصل امریکہ کے ایک اخبار نیویارک ٹائمز نے اگست میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ نیوز کلک کو ایک ایسے ادارے سے پیسہ ملتا ہے جو چین کے ایجنڈے کا پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ بس اسی رپورٹ کی بنیاد پر ای ڈی نے اس ادارے کے خلاف رپورٹ درج کی تھی۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگر نیوز کلک کو اس سے پیسہ ملتا ہے تو کیا وہ لوگ دہشت گرد ہو گئے۔ ان کے مطابق چینی کمپنیوں نے تو پی ایم کیئر فنڈ میں بھی پیسہ دیا ہے جس کے چیئرمین وزیر اعظم ہیں تو کیا یہ کہا جائے گا کہ وزیر اعظم دہشت گرد ہیں۔
لہٰذا اس پولیس کارروائی کے خلاف صحافیوں اور قلمکاروں نے اگلے روز بڑی تعداد میں پریس کلب آف انڈیا کے احاطے میں جمع ہو کر اس کارروائی کی پرزور انداز میں مذمت کی۔ اس موقع پر جہاں بیشتر سینئر صحافی موجود تھے وہیں اروندھتی رائے جیسی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ اور سپریم کورٹ کے وکلا بھی موجود تھے۔ انسانی حقوق کے کارکن بھی موجود تھے۔ سب نے اس کارروائی کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ انھوں نے اپنے اقدامات سے یہ دکھا دیا کہ وہ ڈرنے اور دبنے والے نہیں ہیں۔ ان کی بے خوفی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں متعدد صحافیوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پولیس کارروائی اور ان سے پوچھے گئے سوالوں کی تفصیل بتائی وہیں ابھیسار شرما نے اپنا پروگارم کرنا بند نہیں کیا۔ حالانکہ پولیس نے نیوز کلک کے دفتر کو سیل کر دیا ہے لیکن جو لوگ اپنے گھروں سے کام کرتے رہے ہیں وہ اب بھی کام کر رہے ہیں۔
صحافیوں کے احتجاجی جلسے میں متعدد صحافتی تنظیموں کے ذمہ داروں نے شرکت کی۔ انھوں نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کے نام ایک مشترکہ خط لکھا اور ان سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی۔ یہ خط پریس کلب آف انڈیا، ممبئی پریس کلب، ڈگی پب فاؤنڈیشن آف انڈیا، ویمین پریس کور سمیت صحافیوں کی سولہ تنظیموں اور اداروں کی جانب سے لکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون اور بغاوت کے قانون کی دفعات کے تحت کارروائی کا مقصد صحافیوں کو ڈرانا اور ہراساں کرنا ہے لیکن وہ ڈرنے والے نہیں ہیں۔
صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر نیوز کلک کے خلاف کچھ الزامات ہیں تو ان کی جانچ ہونی چاہیے لیکن صحافیوں کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے لگانے کا کیا جواز ہے۔ ان کے خیال ہے کہ حکومت اختلاف رائے کو پسند نہیں کرتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اظہار کی آزادی پر پابنددی لگانا چاہتی ہے۔ اب تو ہندوستان میں پریس کی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اگر یہی صورت حال رہی تو میڈیا کی آزادی ختم ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے جمہوری طریقہئ کار اختیار کرنے کے بجائے آمرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
ارون دھتی رائے موجودہ صورت حال کو ایمرجنسی سے بھی خطرناک بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بی جے پی اور اس کی حکومت ہندوستانی عوام کے جمہوری مزاج کو بدلنے اور عوامی آواز کو دبانے کے لیے آئین کو ہی بدل دینا چاہتی ہے۔ انھوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اگر بی جے پی 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہو گئی تو پھر ہندوستان ایک جمہوری ملک نہیں رہے گا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس وقت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات اور اگلے سال پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے جس کی وجہ سے حکومت پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔ یہ حکومت شروع سے ہی مخالف آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس کی پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید کرنے والے کئی صحافی اب بھی جیل میں ہیں۔ آزادی اظہار کی مہم چلانے والے ایک ادارے ”دی فری اسپیچ کلکٹیو“ کا کہنا ہے کہ اب تک 16 صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے لگایا گیا ہے۔ آٹھ صحافی اب بھی جیل میں ہیں۔
خیال رہے کہ راجیہ سبھا نے اسی نو اگست کو”ڈیجٹل پرسنل ڈیٹا پروٹکشن بل“ (ڈی پی ڈی پی) 2023 کو منظوری دی ہے جس کا مقصد ڈیجٹل پرسنل ڈیٹا کو پروسس کرنا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان کی نگرانی کرنا ہے۔ ان کو اندیشہ ہے کہ اس سے اطلاعات اور پریس کی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس سے سنسرشپ اور صحافیوں اور ان کے ذرائع کی نگرانی میں اضافہ ہوگا اور حق اطلاعات کے قانون ”رائٹ ٹو انفارمیشن“ پر اثر پڑے گا۔ صحافیوں کے ایک بین الاقوامی ادارے ”دی انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس“ (آئی ایف جے) اور ہندوستان کی ایک تنظیم ”انڈین جرنلسٹس یونین“ (آئی جے یو) نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بل پر نظر ثانی کرے اور پریس کی آزادی کو یقینی بنائے۔
نیوز کلک کیا ہے؟
بائیں بازو کے نظریات کے حامل سینئر صحافی پربیر پرکایستھ نے 2009 میں ”نیوز کلک“ نامی میڈیا ادارہ قائم کیا تھا۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ وہ بائیں بازو کے نظریات والی تحریکات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان واقعات کی رپورٹنگ کرتا ہے جن کو کارپوریٹ میڈیا نظرانداز کر دیتا ہے۔ وہ رپورٹنگ کے علاوہ حکومت کے فیصلوں پر تجزیاتی رپورٹس بھی پیش کرتا ہے اور اس کے علاوہ سائنسی موضوعات پر بھی مضامین شائع کرتا ہے۔ اس ادارے میں تقریباً ایک سو افراد کام کرتے ہیں۔ اس سے ابھیسار شرما، پرانجے گہا ٹھاکرتا، اُرملیش، بھاشا سنگھ اور دیگر سینئر صحافی وابستہ ہیں۔ ان میں سے کچھ صحافی ویڈیو پروگرام بنا کر حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں جب کہ کچھ صحافی تجزیاتی مضامین لکھتے ہیں۔
پولیس نے نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں سے یہ سوالات بھی پوچھے تھے کہ کیا انھوں نے شہریت مخالف قانون سی اے اے کے خلاف نئی دہلی کے شاہین باغ میں چلنے والے احتجاج، دہلی فسادات اور کسانوں کے احتجاج کی رپورٹنگ کی تھی۔ ان سوالوں سے پولیس اور حکومت کی منشا واضح ہو جاتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔