صدقۃ الفطر: ایک دن کے بچہ کا بھی فطرہ ادا کرنا لازم
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے اور مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر مقرر فرمایا ہے۔
صدقہ فطر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ عیدالفطر سے قبل پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کا فطرہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔ نبی اکرمؐ کی حدیث ہے کہ صدق الفطر ادا کرنا ہر غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان پر فرض ہے۔ نیزصدقہ فطر کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ یہ صدقہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں رمضان کا مبارک مہینہ عطاء فرمایا۔
موسم بہار آتا ہے تو مٹی میں ملے اور دبے ہوئے بہت سے بیج اور جڑیں جو طویل عرصے سے نیم مردہ حالت میں پڑے ہوتے ہیں، ان میں زندگی کی رمق پیدا ہو جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گرد و غبار اڑانے والے میدان شادابی سے لہلہانے لگتے ہیں۔ مسلمان اور رمضان المبارک کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے، سارا سال عبادات و معاملات میں اس سے غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں اور بہت سے افراد کے دلوں میں ایمان کی حرارت کمزور ہونے لگتی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کا موسم بہار لے آتا ہے۔ جس میں مسلمان مساجد کا رخ کرتے ہیں، اللہ کی رضا کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہوئے روزے رکھتے ہیں، قرآن کی تلاوت اور صدقہ و خیرات کو معمول بنا لیتے ہیں۔
اسی طرح جن کو اللہ توفیق سے نوازے وہ اعتکاف کی بھی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اپنی نظروں کی حفاظت، جھوٹ، غیبت، چغلی، حسد، بغض، کینہ اور اس طرح کے دیگر گناہوں سے بچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اندر ایمان کی چاشنی اور شادابی پھر سے تازہ کر دیتا ہے اور وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے ر استے پر چل پڑتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ایک ماہ کے مسلسل روزے رکھوانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ تمام گناہ جو انسان کی عادت بن چکے ہوتے ہیں اور انسان انہیں گناہ ہی نہیں سمجھتا، اللہ تعالیٰ انہیں بھی ختم کروانا چاہتا ہے اور اپنے بندوں کو گناہوں سے بالکل پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔
روزہ کے مسائل و احکامات، فضائل، نماز تراویح، کن لوگوں پر روزہ رکھنا فرض اور کن لوگوں کو اس کی رخصت ہے، یہ سب اہم و طویل موضوعات ہیں۔ اب چونکہ رمضان المبارک کو الوداع کہنے کا وقت آگیا ہے تو درج ذیل سطور میں صرف اس ماہ مبارک میں ادا کئے جانے والے ایک اہم فریضے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جس کا ادا کرنا سب پر واجب ہے، اسے صدقہ فطر (فطرانہ) کہتے ہیں۔ صدقہ فطر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی اکرمؐ کی حدیث ہے کہ عیدالفطر سے قبل پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کا فطرہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے اور مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر مقرر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں کہتے ہیں کہ ”ان (امیروں) کے مال میں سے سائل اور محروموں کا حق ہے“ اس لئے یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ غرباء و مساکین کو صدقہ فطر ادا کرنا ان پر کوئی احسان نہیں ہے۔
نبی اکرمؐ کی حدیث ہے کہ صدق الفطر ادا کرنا ہر غلام اور آزاد‘ مرد اور عورت‘ چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان پر فرض ہے (بحوالہ: صحیح بخاری)۔ نیزصدقہ فطر کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ یہ صدقہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا شکرہے کہ اس نے ہمیں رمضان کا مبارک مہینہ عطاء فرمایا، اور روزہ رکھنے، قیام کرنے اور دیگر عبادات بجا لانے کی توفیق بخشی کیونکہ یہ سب کچھ بغیر توفیق الٰہی کے ممکن نہ تھا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر زکوٰة فطر (صدقہ فطر) کے طور پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا ہے۔ یہاں واضع رہے کہ صاع وزن کا پیمانہ نہیں بلکہ ماپ کا پیمانہ ہے، البتہ ایک صاع کی مقدار بعض اہل علم دو کلو چالیس گرام، بعض دو کلو سوگرام اور اکثر اہل علم پونے تین سیر یعنی تقریبا ڈھائی کلو بتلاتے ہیں، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ صدقہ فطر دیتے وقت صاع کا وزن ڈھائی کلو مانا جائے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صدقہ فطر صرف گندم کے ساتھ خاص ہے، جبکہ احادیث میں صدقہ فطر چار قسم کی چیزوں سے ادا کرنے کا ذکر ملتا ہے، ایک کشمش، دوسرا خشک کھجور، تیسرا جو اور چوتھا گندم۔ جبکہ ہر وہ مسلمان جس کی ملکیت میں پانچ چیزوں (سونا، چاندی، نقد رقم، مال تجارت اور ضرورت سے زائد اشیاء) میں سے کوئی ایک یا ان پانچوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے بہ قدر ہو، خواہ اس نصاب پر پورا سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو، تو اس پر اپنی طرف سے اور زیر کفالت نابالغ بچوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
مرد کے ذمے نابالغ اولاد کے علاوہ کسی اور رشتے دار مثلا بیوی، بالغ اولاد، بہن، بھائی غرض کسی بھی دوسرے رشتے دار کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں اگرچہ یہ اس کے زیر کفالت ہی ہوں، البتہ بالغ اولاد اور بیوی کا فطرانہ ان سے اجازت لیے بغیر ادا کر دیا تو ادا ہو جائے گا بہ شرط یہ کہ بالغ اولاد اس کے عیال میں ہو۔
اسی طرح ماں کے ذمے بچوں کا صدقہ فطر لازم نہیں، خواہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔ اگر عورت خود صاحب نصاب ہو تو صدقہ فطر کی ادائیگی کی خود ذمے دار ہے شوہر کے ذمے لازم نہیں، تاہم اگر شوہر بیوی کی طرف سے ادا کردے تو صدقہ فطر ادا ہو جائے گا اور اگر عورت نصاب کی مالک نہیں تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں۔ جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا غفلت کی وجہ سے روزے نہیں رکھے، صدقہ فطر ان پر بھی واجب ہے اگر وہ صاحب نصاب ہیں۔
صدقہ فطر عید کا چاند نظر آنے کے بعد واجب ہوتا ہے اور اس کا وقت عید کی نماز تک رہتا ہے، البتہ صدقہ فطر کا بہتر وقت عید کی صبح نماز عید کے لئے جانے سے قبل ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہی وقت متعین فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فطرانہ سے متعلق حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کی طرف جانے سے پہلے ادا کر دیا جائے اور جو شخص نماز کے بعد ادا کرتا ہے تو اس کا شمار عام صدقات میں ہوگا، ہاں اگر کوئی مصلحت پیش نظر ہو تو دو ایک دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔
صدقہ فطر مستحق رشتے دار کو دینے کا دوہرا ثواب ہے ایک صلہ رحمی اور دوسرا وجوب کی ادائیگی۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے ان امیر افراد کو گندم پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ غربا کی حاجت پوری ہو اور وہ عید کی مسرتوں اور خوشیوں میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔