غزہ میں اسرائیلی بربریت اور امریکی انتخابات... نواب علی اختر
اسرائیل پوری طرح فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر کے اپنا راج قائم کرنا چاہتا ہے، لیکن جانباز فلسطینیوں کی مزاحمت ناجائز صہیونی ریاست کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہے۔
غزہ میں بڑی جنگ شروع ہوئے 10 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اس عرصے میں انسانی حقوق کی پامالی کے کئی نئے ریکارڈ قائم ہو چکے ہیں۔ سنگ دلی کا ریکارڈ، جرائم کا ریکارڈ، طفل کشی کا ریکارڈ، شرمناک خاموشی کا ریکارڈ، شجاعت کا ریکارڈ، صہیونیوں کی ذلت کا ریکارڈ اور جنگ میں انسانی نقصان کا ریکارڈ۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے توغزہ میں کوئی بھی ایسا مجرمانہ اقدام باقی نہیں بچا ہے جو صہیونی حکمرانوں نے انجام نہ دیا ہو۔ اسرائیل ظلم کی ہر حد پار کر چکا ہے مگر اقوام عالم جان بوجھتے انجان بنی ہوئی ہے۔
جنیوا کنونشن سمیت دیگر عالمی انسانی قواعد کا معمول کے مطابق قتل عام ہو رہا ہے۔ حد ہے کہ اسپتالوں تک پر بمباری ہو رہی ہے، تعلیمی ادارے تک محفوظ نہیں ہیں، پناہ گزین کیمپوں تک پر دھاوا بولا جا رہا ہے، غرض کہ فلسطین میں ہر سمت اسرائیلی سفاکیت کا راج ہے اور مجال ہے کسی عالمی ادارے کے کان پر جوں رینگی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اہل مغرب کے سامنے جنگی جرائم وہ ہیں جو ان کے مفادات کے منافی ہو، کوئی بھی اس کا سیاسی حل نکالنے پر تیار نہیں ہے۔ دنیا کی یہ بے حسی انسانیت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
غزہ کی جنگ بند گلی میں داخل ہو چکی ہے جبکہ صہیونی ریاست کی توجہ اب زیادہ تر شمالی محاذ پر حزب اللہ، لبنان اور اسی طرح یمن کی جانب مرکوز ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تمام محاذ ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان میں سے کسی ایک محاذ پر رونما ہونے والی تبدیلی دوسرے محاذ کو بھی شدت سے متاثر کرتی ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاروں کا بڑا حصہ جنگ جاری رہنے کے خلاف ہے۔ وہ اپنے اس موقف کے معقول دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ اس وقت تک انہیں غزہ جنگ سے جو شدید مالی اور جانی نقصان پہنچا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے دسیوں یرغمالی غزہ میں حماس کے کنٹرول میں ہیں جو رہا نہیں ہوئے ہیں یا مارے گئے ہیں۔ جبکہ صہیونی معاشرے کو شدید اقتصادی، نفسیاتی اور سیکورٹی دباؤ کا سامنا ہے۔
اس صورت حال نے صہیونی آبادکاروں کو اس نتیجے پر پہنچادیا ہے کہ جنگ کو ختم ہونا چاہئے اور جنگ بندی کا اعلان ہونا چاہئے۔ یہ سوچ صرف آبادکاروں تک ہی محدود نہیں ہے۔ دو روز قبل الجزیرہ چینل کے عسکری تجزیہ کار جنرل فائز الدویری نے کہا کہ صہیونی فوج کا ایک بڑا حصہ بھی جنگ جاری رکھنے کا خواہاں نہیں ہے اور غزہ سے نکلنے کے درپے ہے، لیکن نیتن یاہو رکاوٹ بن رہا ہے۔ اسرائیلی فوج غزہ سے نکلنا چاہتی ہے کیونکہ فوج ہی کو جانی نقصانات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ فوج کے غزہ میں رہنے کے اقتصادی اخراجات بھی بہت بھاری ہیں چنانچہ اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ غزہ سے انخلاء کی طرف زیادہ مائل ہے۔ کچھ سروے رپورٹوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 62 فیصد اسرائیلی غزہ سے فوج کے انخلاء اور مستقل جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔ ادھر اسرائیلی معاشرے میں نفسیاتی امراض میں 6 گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
دوسری طرف امریکی حکام بھی جنگ بندی کا رجحان ظاہر کرتے آئے ہیں۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ امریکی حکام کم از کم نئے انتخابات تک جنگ بندی چاہتے ہیں تب بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دشمن کے خیمے میں جنگ بندی کے لیے پختہ ارادے پائے جاتے ہیں اور گویا صرف بنجامن نیتن یاہو اور اس کے چند انتہا پسند وزیر اور فوجی جرنیل ہیں جو جنگ بندی کی راہ میں حائل ہیں۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اگر نیتن یاہو اور اس کی یہ انتہا پسند کچن کیبنٹ آئندہ امریکی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت کا امکان نہ دیکھ رہی ہوتی تو اب تک جنگ بندی پر راضی ہو چکی ہوتی۔
لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ غزہ جنگ، چاہے محدود پیمانے پر ہی سہی، جاری رہے گی اور کم از کم آئندہ امریکی صدر واضح ہو جانے تک جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ نکتہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ صہیونی حکام ہر گز مستقل جنگ بندی نہیں چاہتے چونکہ ایسی صورت میں انہیں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسرائیل اور لبنان کے درمیان وسیع جنگ شروع ہو جانے کا امکان بھی بہت اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ مقبوضہ فلسطین سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع سمیت بعض صہیونی حکام، طوفان الاقصی آپریشن کے بعد غزہ سے پہلے حزب اللہ لبنان پر حملے کے خواہاں تھے کیونکہ انہیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ محاذ ایک تو زیادہ طاقتور ہے اور دوسرا غزہ کے خلاف جنگ شروع ہو جانے کی صورت میں حزب اللہ لبنان بھی سو فیصد میدان جنگ میں کود پڑے گی۔
جہاں تک غزہ جنگ پر امریکی انتخابات کے نتائج کا تعلق ہے تو منظر عام پر آنے والی معلومات کی روشنی میں موجودہ امریکی حکومت کی بھرپور مدد اور حمایت کے باوجود بنجامن نیتن یاہو کی پہلی ترجیح ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ نیتن یاہو کی نظر میں اگرچہ بائیڈن نے اس جنگ میں کسی مدد سے دریغ نہیں کیا لیکن پھر بھی اس کے کچھ تحفظات ہیں اور ٹرمپ ایسے تحفظات نہیں رکھتے۔ اسی لئے صہیونی حکمران امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔ یوں اس انتخابات کا نتیجہ غزہ میں جنگ بندی، جنگ جاری رہنے اور پورے خطے میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونے پر اثر انداز ہوگا، لیکن مشکل نظر آتا ہے کہ ٹرمپ نیتن یاہو اور اس کے ساتھیوں کے جال میں پھنس جائے۔ وہ آخرکار تاجر ہے اور ایسی حماقت کے نتائج کا بہتر ادراک کر سکتا ہے۔
مظلوم فلسطینی گزشتہ 75 سال سے حالت جنگ میں ہیں، اسرائیل نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا ہے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کے دیسی ساختہ کھلونا قسم کے راکٹوں کو بہانہ بنا کر انسانیت پر قیامت مسلط کرنے والی صہیونی حکومت نے غزہ کی پٹی میں جو تباہی اور بربادی پھیلائی ہے اسے دیکھ کر 1945ء میں جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹم بم حملوں کی تباہی یاد آتی ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ڈیڑھ ماہ سے بھی کم عرصے میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر 20 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے، جو مجموعی طور پر6 طاقتور ایٹم بموں کے بارود اور ان کی تباہی کے برابر ہے۔
بارود کی بارش میں یورینیم گیسوں کے گولے بھی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی زندگی کے ساتھ حیوانی اور نباتاتی زندگی بھی مفلوج ہونا شروع ہو گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف 15، ایف 16 اور بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں کی مدد سے غزہ کی پٹی پر ایم کے 82، ایم کے 83 اورایم کے 84 نامی 80 ہزار بم برسائے گئے ہیں، اس بم کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک بم جس مقام پر گرتا ہے، وہاں ایک مربع کلومیٹر کے علاقے میں کسی چیز کے زندہ بچ جانے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔
جہاں ہزاروں ایسے بم برسائے گئے ہوں وہاں تباہی کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ بم باری کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے ہر قسم کے غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ اردن اور مشرقی یروشلم میں تعمیر کی جانے والی 140 بستیوں میں 6 لاکھ سے زیادہ یہودیوں کو آباد کیا جا چکا ہے۔ اسرائیل پوری طرح فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر کے اپنا راج قائم کرنا چاہتا ہے، لیکن جانباز فلسطینیوں کی مزاحمت ناجائز صہیونی ریاست کے سامنے سیسہ پلائی دیوارکی مانند کھڑی ہے۔ دلیر فلسطینیوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ خون کے آخری قطرے تک اپنی سرزمین کی بازیابی کے لیے سینہ سپر رہیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔