اسرائیل-ایران جنگ: ہندوستان کو دکھانی ہوگی رسّی پر چلنے کی بازیگری!... اشوک سوین

مشرق وسطیٰ میں ہندوستان کے مفاد اتنے اہم ہیں کہ اسرائیل-ایران جنگ میں کسی کی حمایت کر اسے حاشیہ پر نہیں ڈالا جا سکتا، چار قدم آگے بڑھ کر اسرائیل کی حمایت کرنے والی موجودہ حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی۔

<div class="paragraphs"><p>اسرائیل اور ایران کا پرچم</p></div>

اسرائیل اور ایران کا پرچم

user

اشوک سوین

اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ بہت بڑی جنگ کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ اس بڑھتے تصادم نے ہندوستان کے لیے مشکل چیلنج پیش کر دیا ہے۔ دو اہم علاقائی طاقتوں اسرائیل اور ایران کے ساتھ اپنے رشتوں میں توازن رکھنے کے لیے مہارت بھری اسٹریٹجی، پالیسی پر مبنی غیر جانبداری اور امن کے لیے مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہندوستان کو کسی کی حمایت کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے سفارتی اثرات کا استعمال کشیدگی کم کرنے اور دونوں فریقین کو بات چیت کی طرف لوٹنے کے لیے کرنا چاہیے۔

اسرائیل اور ایران دونوں کے ساتھ ہندوستان کے رشتے پالیسی پر مبنی اور طویل مدتی ہونے کے علاوہ الگ الگ اسباب سے بڑے گہرے بھی ہیں۔ ان رشتوں کی پیچیدگی کی جھلک حال ہی میں تب دیکھنے کو ملی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی حمایت کی، جبکہ اسی وقت ہندوستانی بحریہ کے جہاز تربیتی مشن کے لیے ایران پہنچے تھے۔ یہ متضاد لگنے والے رخ اس بات کو نشان زد کرتے ہیں کہ مقابلہ آرا مفادات کے اس غیر مستحکم علاقہ میں ہندوستان کے مفادات کتنے متوازن ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں، خاص طور سے ڈیفنس اور سیکورٹی کے شعبہ میں اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے رشتے بہت اچھے رہے ہیں۔


اسرائیل ہندوستان کی فوجی ٹیکنالوجی کے پرائمری ذرائع میں سے ایک ہے، جن میں جدید ڈرون اور میزائل سسٹم شامل ہیں۔ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف خفیہ جانکاری بھی شیئر کرتے ہیں جس سے ہندوستانی کے تحفظاتی منظرنامہ میں اسرائیل ایک اہم شراکت دار بن جاتا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کی توانائی سیکورٹی اور علاقائی رابطہ میں ایران اہم کردار نبھاتا ہے۔ پابندیوں کے باوجود ایران ہندوستان کے لیے تیل کا اہم فراہم کنندہ بنا ہوا ہے۔ چابہار بندرگاہ پروجیکٹ، جو ہندوستان کو پاکستان کو درکنار کرتے ہوئے افغانستان اور وسط ایشیا تک پہنچنے کا راستہ دیتا ہے، ہندوستان کی جغرافیائی سیاسی پالیسی کی بنیاد ہے۔ ایران کے ساتھ رشتوں کو توڑنے کا مطلب اس اہم پیش قدمی کو خطرے میں ڈالنا ہوگا اور اس سے ہندوستان کی توانائی (انرجی) درآمدگی پر منفی اثر پڑے گا۔

اسرائیل-ایران جنگ ہندوستان کے تجارتی راستوں، خصوصاً بحیرۂ احمر اور سویز نہر والے راستہ کو سنگین طور پر رخنہ انداز کر سکتا ہے۔ ہندوستان کی تقریباً 68 فیصد تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے جس میں سے بیشتر ان حساس آبی علاقوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی جنگ سے شپنگ پر اخراجات میں اضافہ کا بھی جوکھم ہے جس سے ہندوستانی کاروباروں کو ’کیپ آف گڈ ہوپ‘ جیسے طویل، زیادہ مہنگے راستوں پر غور کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔ اس حالت میں نہ صرف مال کی آمد و رفت میں ہفتوں زیادہ وقت لگے گا، بلکہ خرچ بھی بڑھ جائے گا۔


ہندوستان کے لیے توانائی سیکورٹی مزید ایک اہم فکر کا موضوع ہے۔ توانائی ذرائع کے تنوع اور روس سے زیادہ تیل خریدنے کے بعد بھی ہندوستان کا تقریباً 45 فیصد تیل اب بھی مشرق وسطیٰ سے آتا ہے۔ اس تیل کاروبار کا بڑا حصہ آبنائے ہرمز سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ راستہ اہم ہے اور جنگ بڑھنے کی صورت مین اس راستہ کو بھی ہدف بنائے جانے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا ہوا تو ہندوستان کی توانائی فراہمی خطرے میں پڑ جائے گی اور عالمی بازار میں تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ پہلے سے ہی ہندوستانی معیشت کے لیے پریشانی کا سبب بنی مہنگائی مزید بڑھے گی اور اس سے ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جائے گا۔ پھر معیشت کے پٹری پر لوٹنے کی راہ کہیں زیادہ مشکل ہو جائے گی۔

ثقافتی طور سے ہندوستان اور ایران کے درمیان گہرے رشتے ہیں۔ اس کا اثر ہندوستانی فنون، آرٹ اور زبان پر فارسی اثرات کی شکل میں صاف نظر آتا ہے۔ اس لیے تہران کے ساتھ رشتوں کو توڑنا یا اسے دشمن کی شکل میں دیکھنا نہ صرف ہندوستان کے جغرافیائی-سیاسی مفادات کو نقصان پہنچائے گا بلکہ ایک طویل مدتی ساتھی کو بھی الگ تھلگ کر دے گا۔


اسرائیل-ایران جنگ کو ہندوستانی مفادات کے آئینہ میں دیکھنے سے یہی لگتا ہے کہ ہندوستان کو مغرب کے دباؤ کی مخالفت کرنی چاہیے اور غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ مضبوط دفاعی تعلقات کے باوجود اسرائیل کا ساتھ دینے سے ایران الگ تھلگ ہو جائے گا اور توانائی سیکورٹی اور چابہار بندرگاہ کے ذریعہ سے علاقائی رابطہ سمیت ہندوستان کے پالیسی پر مبنی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس کے برعکس ایران کا ساتھ دینے سے اسرائیل کے ساتھ رشتوں میں کشیدگی آ جائے گی جو ڈیفنس ٹیکنالوجی اور خفیہ جانکاری شیئر کرنے کے نظریے سے بیش قیمت ساتھی ہے۔

اس جنگ میں ہندوستان کے سامنے چیلنج غیر جانبدار رخ بنائے رکھنے کا ہے، جو نہ تو اسرائیل کو الگ تھلگ کرے اور نہ ایران کو۔ اسرائیل کے لیے حمایت کا کوئی بھی کھلا مظاہرہ ایران اور وسیع مشرق وسطیٰ کے ساتھ ہندوستان کے رشتوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، جہاں لاکھوں ہندوستانی کام کرتے ہیں اور اپنے وطن پیسے بھیجتے ہیں۔ ہندوستان کی توانائی درآمد کا بڑا حصہ خلیجی ممالک سے آتا ہے اور عرب دنیا کے ساتھ مستحکم رشتہ بنائے رکھنا ہندوستان کی توانائی سیکورٹی اور اس کے مہاجر لوگوں کے بھلے کے لیے ضروری ہے۔


ہندوستان کی غیر صف بندی کی پالیسی نے تاریخی طور سے امریکہ اور روس سے لے کر اسرائیل اور ایران تک یکسر مخالف سیاسی پالیسیوں والے مختلف ممالک کے ساتھ اچھے رشتے بنائے رکھنے کی راہ دکھائی ہے۔ اسرائیل-ایران جنگ کے معاملے میں ’اسٹرٹیجک خود مختاری‘ کے اس نہروازم والے اصول کی بنیاد پر ہی ہندوستان کا رخ طے ہونا چاہیے۔ غیر جانبداری ہندوستان کو دونوں فریقین سے جڑے اپنے مفادات کی حفاظت کا موقع دے گی، جبکہ اسے اس غیر مستحکم علاقہ میں امن و استحکام کی آواز کی شکل میں قائم کرے گی۔

مشرق وسطیٰ میں دہائیوں کی شراکت داری سے تیار ہندوستان کا سفارتی اثر اس علاقہ میں امن میں تعاون کرنے کا ایک موقع ہے۔ ہندوستان کو بات چیت اور کشیدگی کم کرنے کے معاملے میں اسرائیل اور ایران دونوں کے ساتھ اپنے رشتوں کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وزارت خارجہ کا حالیہ بیان، جس میں صبر اور شہریوں کی سیکورٹی کی گزارش کی گئی تھی، ایک اہم قدم تھا۔ یقینی طور سے یہ صحیح سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے، لیکن اس طرح کی مزید پیش قدمی کی جانی چاہیے۔ صحیح سمت میں قدم بڑھانا چاہیے، لیکن اس طرح کے تمام اقدام اٹھائے جا سکتے ہیں اور اٹھانے بھی چاہئیں۔


گھریلو سطح پر نریندر مودی حکومت کو اسرائیل-ایران جنگ کے سلسلے میں اپنے عوامی بیانات اور کاموں میں احتیاط برتنا چاہیے۔ بی جے پی کی سیاسی بنیاد اس کے ہندوتوا عناصر اسرائیل کو موافق نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اسرائیل کی کھل کر حمایت کرنے سے ہندوستان کے متنوع سماج میں کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے۔ مودی حکومت کو ایسی کسی بھی بیان بازی سے بچنا چاہیے جسے موجودہ جنگ میں کسی کا حق لینے کی شکل میں سمجھا جائے۔ اس کی جگہ ہندوستان کے غیر صف بندی سے متعلق عزائم اور مشرق وسطیٰ میں امن دیکھنے کی اس کی خواہش پر زور دیا جانا چاہیے۔ یہ متوازن نظریہ گھریلو اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر ہندوستان کے طویل مدتی مفادات کو پورا کرے گا۔

ہندوستان طویل مدت سے جنگ کے پرامن حل کا حمایتی رہا ہے۔ سفارتی حل کو حوصلہ بخشنے کے لیے وہ اقوام متحدہ جیسے کثیر فریقی اداروں کے ذریعہ سے کام کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور یو اے ای جیسے اہم خلیجی مماکل کے ساتھ ہندوستان کے رشتے اسے ثالثی کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ ہندوستان-مشرق وسطیٰ-یوروپ معاشی گلیارے (آئی ایم ای سی) کے اعلان کے ساتھ تو ہندوستان کے لیے یہ مزید ضروری ہو جاتا ہے کہ اس علاقہ میں امن بنا رہے، کیونکہ یہ گلیارا علاقائی کاروبار کو بہت زیادہ بڑھانے والا ہے۔


مشرق وسطیٰ میں ہندوستان کے مفادات اتنے اہم ہیں کہ اسرائیل-ایران جنگ میں کسی کی حمایت کر انھیں خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ غیر جانبداری برقرار رکھنے سے ہندوستانی اپنی توانائی فراہمی کی حفاظت کر سکتا ہے، اپنے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔