اسرائیل-حزب اللہ جنگ: پڑوس میں آتش فشاں کی وحشت... آشیش رے

مغربی ایشیا میں جس طرح جنگ کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے، وہ ہندوستان کے لیے فکر کی بات ہے، حالات بتاتے ہیں کہ یہ آگ جلد بجھنے والی نہیں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>اسرائیلی حملہ کے بعد لبنان کی راجدھانی بیروت میں بدحالی کا منظر، تصویر GettyImages</p></div>

اسرائیلی حملہ کے بعد لبنان کی راجدھانی بیروت میں بدحالی کا منظر، تصویر GettyImages

user

آشیش رے

مغربی ایشیا تلوار کی دھار پر ہے۔ ایران حامی تنظیم حزب اللہ کے خلاف مہم میں اسرائیلی ٹینکروں کی لبنان میں دراندازی اور جوابی حملہ کرتے ہوئے ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کرنے سے پورا علاقہ ایسی خطرناک حالت میں پہنچ چکا ہے جہاں جنگ کبھی بھی خوفناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے متنبہ کیا ہے کہ ایران کو اپنے کیے کا خمیازہ بھگنا پڑے گا۔ دوسری طرف ایرانی صدر نے بھی دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ تل ابیب کے لیے یہی اچھ اہوگا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ میں نہ پڑے۔ امریکہ اور کچھ حد تک برطانیہ نے بحیرۂ روم میں تعینات اپنے جنگی آبدوزوں کے ذریعہ ایرانی میزائلوں کو انٹرسپٹ کرنے میں اسرائیل کی مدد کی۔ اسرائیلی حکومت اور امریکی صدر جو بائڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے پہلے کہ ایران کی میزائلیں کسی نشانے سے ٹکراتیں، انھیں روک دی گئیں۔ حالانکہ حملے کی ویڈیوز بتاتی ہیں کہ ان میں سے کئی میزائلیں اسرائیل کی زمین سے ٹکرائیں اور کچھ فوجی ٹھکانوں پر بھی گریں۔


اسرائیل کے ’حقوق دفاع‘ کے نام پر امریکہ، برطانیہ اور دیگر یوروپی و امریکی ممالک کی تل ابیب کے حق میں ممکنہ گروپ بازی بڑے خطرے کا اشارہ دیتی ہے۔ دوسری طرف روس اور چین کی ایران کے ساتھ ہمدردی تو ہے، لیکن فوجی سطح پر جنگ میں ان کی شمولیت کا امکان نظر نہیں آتا۔ بائڈن بدلہ لینے کے اسرائیلی رخ کی حمایت کرتے ہیں، لیکن انھوں نے اس بات کو ظاہر نہیں کیا ہے کہ اس طرح کے اسرائیلی رد عمل میں امریکہ بھی شامل ہوگا یا نہیں۔ اُدھر چین میں صلاحیت ہے کہ وہ ایران کے لیے اسلحوں، مہارت اور تکنیک کی سپلائی لائن شروع کر جنگ کو ہوا دے۔

ذمہ داری بین الاقوامی طبقہ ایران کے ذریعہ اسرائیل کے خلاف حزب اللہ اور حماس کی حمایت میں کھل کر سامنے آنے سے بے حد فکر مند ہے۔ یہ جنگی علاقہ ہندوستان کے بے حد قریب ہے اور کسی بھی صورت میں یہ ہندوستانیوں کے لیے اچھی بات نہیں۔ ’چوتھم ہاؤس‘ کے نام سے مشہور رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرس کی ڈائریکٹر برانوین میڈاکس نے اس بات پر حیرانی ظاہر کی ہے کہ ایسی حالت میں جبکہ فلسطینی اتھارٹی حکمراں غزہ میں حماس کے خلاف ابھی جنگ چل رہی ہے اور اسی اتھارٹی کے حلقہ اختیار میں پڑنے والے مغربی ساحل میں بھی تشدد بڑھتا جا رہا ہے، پھر اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف مزید ایک محاذ کھولنے کا فیصلہ کیوں کیا؟


میڈاکس کا اندازہ ہے کہ اسرائیل نے ایسا اپنے دشمنوں کو کمزور کرنے کے لیے کیا ہوگا تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے بڑے خطرات کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔ ان کے مطابق یہ امن قائم کرنے کی پالیسی تو نہیں ہو سکتی، کیونکہ حزب اللہ گھٹنے ٹیکنے سے رہا۔ اسرائیل کے لیے مخالفت اس کی نسوں میں دوڑتا ہے، کیونکہ برطانیہ اور امریکہ کی حمایت کے سبب فلسطین کو کاٹ کر اسرائیل کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔

بہرحال، نیتن یاہو کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ بے شک حماس کے ذریعہ پکڑے گئے یرغمالوں کو واپس لانے میں ناکامیاب رہنے کے سبب اسرائیلیوں نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا، لیکن حزب اللہ کے خلاف ان کے سخت اقدام کی تعریف کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اسرائیل میں مبصرین بتاتے ہیں کہ مبینہ بدعنوانی کے لیے عدالتی معاملوں کے سبب ان پر دباؤ بنا ہوا ہے اور ایسے حالات میں جنگی دور والی ایمرجنسی کا برقرار رہنا ان کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ عارضی طور سے ان کے اوپر لٹکی ہوئی ڈیموکلس کی تلوار کو ہٹا دیتا ہے۔


میڈاکس کا کہنا ہے کہ علاقائی جنگ سے بچنے کے لیے کام کر رہے ممالک کے لیے فکر کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت لبنان کے حملوں کا استعمال ایران کی نیوکلیائی سہولیات پر مستقبل میں حملہ کرنے کے متبادل کی شکل میں کر سکتی ہے۔ اسرائیل کی نظر ایران کی تیل ریفائنریوں پر بھی ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر خوفناک اندیشے منڈلا رہے ہیں۔

اسرائیل کی پرورش واشنگٹن نے کی ہے۔ اس نے تل ابیب کو پیسے، جدید تکنیک اور بے حد تباہناک اور جدید ترین فوجی ہارڈویئر سے مزین کیا ہے۔ یہ عملی طور پر امریکہ کی 51ویں ریاست ہے۔ جب ہندوستان نے ایک دہائی قبل چین کے ذریعہ حاصل نیوکلیائی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے 1974 میں نیوکلیئر ٹیسٹ کیا تھا، تو امریکہ کا رخ نئی دہلی کے خلاف بے حد جارحانہ رہا تھا۔ لیکن امریکہ نے اسرائیل کی نیوکلیائی اسلحہ صلاحیت کو بڑی سہولیت کے ساتھ نظر انداز کر دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاملے کو مغربی ممالک نے کبھی اٹھایا ہی نہیں۔


یکم اکتوبر کو اسرائیل نے اپنے شمال میں لبنان کے خود مختار علاقہ میں زمینی مہم شروع کی۔ اسرائیلی فوج نے اسے لبنان میں ہیڈکوارٹر چلانے والے حزب اللہ کے خلاف ایک ’محدود، مقامی اور مہدف‘ زمینی مہم قرار دیا۔ کچھ ہی دن قبل اسرائیل کے ذریعہ مبینہ طور سے موڈیفائی کیے گئے پیجر اور واکی ٹاکی لبنان میں پھٹے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد اسرائیل نے لبنان میں ہزاروں مقامات پر بمباری کی جس میں اس کی بھیڑ بھاڑ والی راجدھانی بیروت بھی شامل تھی۔ بمباری میں 1000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے، جن میں حزب اللہ کے اعلیٰ عہدیداران اور کمانڈر بھی شامل ہیں۔ طویل مدت سے اس تنظیم کے قائد رہے حسن نصراللہ کی جان بھی اس بمباری میں چلی گئی۔

اسرائیل کے مغرب میں واقع غزہ پٹی میں اسرائیل گزشتہ ایک سال سے مہم چلا رہا ہے اور حماس کو ملیامیٹ کرنے کے اپنے اعلانیہ مقصد کو پورا نہیں کرنے کے باوجود اس نے اپنی توجہ حزب اللہ پر مرکوز کی ہے۔ اس کے بارے میں لندن میں جاسوسی ماہرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے خلاف جارحانہ کارروائی سے اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل کے پاس سالوں سے اکٹھا کی گئی خفیہ جانکاری کا وافر ذخیرہ ہے۔ ظاہر ہے، اسرائیل کی جاسوسی ایجنسی موساد نے حزب اللہ کے نیٹورک میں دراندازی کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ جب اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی تو حزب اللہ، جس کے پاس کم از کم ڈیڑھ لاکھ چھوٹی اور درمیانہ دوری کی میزائلوں کا اسلحہ خانہ ہے، نے شمالی اسرائیل کو ہدف بنایا۔ اس علاقے سے 70 ہزار سے زیادہ اسرائیلیوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا ہے۔ لیکن حزب اللہ کا حملہ جاری ہے، بے شک یہ اسرائیلی حملے کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔


سوال یہ اٹھتا ہے کہ حزب اللہ نے اتنی پٹائی کھانے کے بعد ٹھوس طریقے سے جوابی حملہ کیوں نہیں کیا؟ کیا حزب اللہ کی طاقت کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے؟ ایران کی حفاظت میں حزب اللہ کا اہم کردار ہے اور اسرائیل کی صیہونیت کے خلاف ’مخالفت کے مرکز‘ (جس میں حماس اور سوڈان میں حوثی باغی بھی شامل ہیں) میں وہ ایک اہم کڑی ہے، کیونکہ اسرائیل کو مسلمان، خصوصاً شیعہ پھوٹی آنکھ نہیں سہاتے۔ حزب اللہ کے اسلحے بڑے پیمانہ پر ایرانی کارخانوں سے ہی آتے ہیں۔

لبنان کے وزیر اعظم نجیب میقاتی کے طمابق ان کے ملک میں 10 لاکھ لوگ اسرائیل کے ہوائی حملوں سے بچنے کے لیے اپنے گھروں سے بھاگنے کو مجبور ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ ایک لاکھ سے  زیادہ لوگ لبنان کے مشرقی پڑوسی شام چلے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ اس جنگ سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائل حملہ کی مذمت کرنے کے لیے تل ابیب نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری اینٹونیو گٹیرس کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دیا ہے۔


مشرق وسطیٰ میں بھڑی آگ کو بجھانے کے معاملے میں وہائٹ ہاؤس کی بے اثر مداخلتوں کے بارے میں یہی قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں کہ امریکی صدر بائڈن کے ہاتھ 5 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب تک بندھے ہیں۔ ویسے، یہ بھی ظاہر سی بات ہے کہ فلسطین کے حامیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ امریکی اسرائیل کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں اور وہ یقینی طور سے ایران کے خلاف ہیں۔ اس وہج سے اگر بائڈن اسرائیل کے خلاف کوئی بھی سزا والی کارروائی کرتے ہیں تو اس کا خمیازہ صدارتی عہدہ کی امیدوار کملا ہیرس کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ ڈیموکریٹ ووٹرس کی اسرائیل کے تئیں بالواسطہ و بلاواسطہ حمایت کے سبب بائڈن اس معاملے سے بچ رہے ہیں، جبکہ صدارتی عہدہ کے ریپبلکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ تو کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر حزب اللہ اپنی اس بے عزتی کو سر جھکا کر قبول کر لیتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہوگا کہ وہ اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ اسے ظاہر کیا جاتا ہے۔ تہران کے پاس موجود متبادل میں ایک ہے ’قدس فورس‘، جو اس کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب کا ایک ڈویژن ہے اور یہ غیر روایتی خفیہ مہموں کو انجام دینے کے لیے مشہور ہے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ اس حادثہ کو لے کر اسلامی دنیا میں ہی عدم اتفاق ہے۔ سنی عرب ملک امریکہ کے شراکت دار ہیں اور وہ اردن کے علاوہ خفیہ طور سے اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں، اور یہ ایران کے تئیں ان کی مخالفت سے واضح ہے۔ دوسری طرف شیعہ اتحاد والے عراق، شام، لبنان، سوڈان اور فلسطین اتھارٹی تہران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسے حالات میں مستقبل قریب میں امن تو دور کی کوڑی معلوم ہوتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔