اسماعیل ہنیہ کی شہادت محاذ مزاحمت کے لئے بڑا نقصان
صہیونیوں کی ہٹ دھرمی کے سبب اگرچہ امن کے تمام راستے تیزی سے بند ہو رہے ہیں جبکہ اس بحران سے باہر نکلنے کا واحد راستہ غزہ میں جاری قتل و غارت کو فوری طور پر روکنا ہے
غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے چونکا دینے والی واقعے نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو غیر یقینی کی صورت حال میں دھکیل دیا ہے جبکہ علاقائی انتشار کے خطرات میں بھی مزید اضافہ ہوا ہے۔ فلسطینی رہنما نو منتخب ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریبِ حلف برادری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔ اگرچہ اسرائیل نے اس اشتعال انگیز فعل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے قتل کا ذمہ دار کون ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے چند گھنٹے پہلے اسرائیل نے لبنان کی راجدھانی بیروت میں بھی بمباری کی تھی جس میں حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اسرائیلی وزیر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی بھیانک کامیابی کا ’جشن‘ منایا۔
بلا شبہ اسرائیل اس وقت آگ سے کھیل رہا ہے اور اس کی یہ من مرضی پورے خطے کو شدید انتشار کی حالت میں دھکیل سکتی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے ساتھ اسرائیل نے تہران کو چیلنج کیا ہے۔ ایران کے لیے یہ دشوار ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین پر ہونے والی سنگین اشتعال انگیزی کا جواب نہ دے۔ اسرائیل نے ایران جسے ’مزاحمت کا مرکز‘ تصور کیا جاتا ہے، قریبی اتحادی کو اسی کی سرزمین پر نشانہ بنایا ہے۔ تہران کو مکمل داخلی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ اتنی اہم شخصیت کو قتل کیا ہو۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہو۔ ایران کے اعلیٰ ایٹمی سائنسدانوں اور جرنیلوں کو بھی اسی انداز میں نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
لیکن صہیونی ریاست نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ ایران کسی بھی ایسے فریق کو معاف نہیں کرتا جو اس کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرے گا اور اس کے مہمانوں کو قتل کرے گا، اور ضرورت پڑنے پر امریکہ کے ساتھ براہ راست فوجی محاذ آرائی کے مرحلے تک بھی جانے سے نہیں ہچکچائے گا۔ یقیناً اسماعیل ہنیہ جیسی اہم، جرات مند اور صبر آزما شخصیت کی شہادت محاذ مزاحمت کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے، لیکن محاذ مزاحمت ان کے ساتھیوں سے بھرا پڑا ہے جو ان کی غیر موجودگی کا ازالہ اور ان کی شہادت سے معرض وجود میں آنے والے خلا کو پر کریں گے۔ مزاحمتی گروپوں نے القدس شریف کی خاطر اپنے بہترین بیٹوں کو قربان کیا ہے، لیکن انہوں نے کبھی بھی دشمن کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔
مختلف حلقوں سے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کی جا رہی ہے۔ مزاحمت میں ایران کے اتحادی حزب اللہ اور یمن کے بیشتر اہم حصوں پر حکومت کرنے والے حوثی گروپ نے اس کی بھرپور مذمت کی جبکہ روس نے اسے ’ناقابلِ قبول سیاسی قتل‘ قرار دیا۔ دوسری جانب چین نے کہا ہے کہ اسے اسماعیل ہنیہ کے قتل پر ’گہری تشویش‘ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل گزشتہ 10 ماہ سے غزہ میں حماس کو کچلنے میں ناکام ہوا ہے اور اسی بوکھلاہٹ میں بنیامن نیتن یاہو مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک جیسے شام، لبنان اور ایران کی خود مختاری میں مداخلت کر رہے ہیں۔ صہیونیوں کی ہٹ دھرمی کے سبب اگرچہ امن کے تمام راستے تیزی سے بند ہو رہے ہیں جبکہ اس بحران سے باہر نکلنے کا واحد راستہ غزہ میں جاری قتل و غارت کو فوری طور پر روکنا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے قتل کے ساتھ ہی مستقبل قریب کے لیے جنگ بندی کے امکانات مزید معدوم ہو گئے ہیں۔ امریکہ اب بھی اسرائیل کو اس قتل و غارت گری سے روک سکتا ہے لیکن چونکہ یہ انتخابات کا سال ہے تو اس طرح کا امکان کم ہی ہے کہ دونوں صدارتی امیدوار یہودیوں کو ناراض کر کے واشنگٹن میں موجود صہیونی لابی کے خلاف کھڑے ہوں۔ ایسی صورت میں مشرقِ وسطیٰ یقیناً آنے والے چند دنوں تک شدید تناو کی زد میں رہے گا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد غزہ جنگ بندی مذاکرات کے مستقبل پر سوالات اٹھنے لگے۔ سیاسی قتل اور غزہ میں شہریوں کو مسلسل نشانہ بنانا جب کہ فریقین کے مابین بات چیت بھی جاری ہو، ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب ایک فریق دوسرے فریق کے مذاکرات کار کو قتل کر دے تو مذاکرات کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کے دعوے کرنے اور اسے یقینی بنانے والوں کے لیے بھی اس سے بدترین وقت نہیں ہوگا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، شہید ہنیہ مظلومین فلسطین کی ایک توانا آواز تھے، انھوں نے تحریک آزادی فلسطین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، ان واقعات سے مزاحمت کا محاذ کمزور نہیں ہوگا بلکہ یہ مزید تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ اسماعیل ہنیہ کی پوری زندگی نامساعد حالات اور مختلف ممالک میں گزری۔ اسرائیل ماضی میں کئی بار اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کی کوششیں کر چکا ہے۔ پہلی بار 2006 میں جب اسماعیل ہنیہ وزیر اعظم تھے تب اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے ان کے دفتر کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں ان کے تین محافظ زخمی ہوئے لیکن وہ کچھ لمحے پہلے اپنے دفتر سے نکلنے کے باعث محفوظ رہے تھے۔
غزہ میں بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بے گناہ شہریوں کا قتل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے انسانیت خون کے آنسو رو رہی ہے۔ ایسی صورت میں مشرق وسطیٰ کے حالات اب ناگفتہ بہ ہو چکے ہیں۔ دنیا کی مقتدر ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے کی فروخت اور فوجی و سیکورٹی مدد کو اس کے ساتھ مشروط کر دیں کہ اسرائیلی حکام اپنے ان جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔ ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کون سی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہی ہیں، انسانی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کی جائے جو ان سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔
گزشتہ چند ماہ میں 40 ہزار سے زائد افراد کا قتل اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے والی ظالم اسرائیل فوج کی اس کھلی دہشت گردی سے کیا دنیا کا امن خطرے میں نہیں ہے؟، کیا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ انسانیت کے نام پر دنیا بھر میں احتجاج نہیں کر رہے ہیں، کیا عالمی طاقتوں کو بہتا ہوا خون اور اس ناحق خون کے خلاف آواز بلند کرنے والے ہزاروں لاکھوں افراد نظر نہیں آ رہے۔ یہ ظلم دہائیوں سے فلسطین میں جاری ہے اور یہی ظلم دنیا کو ایک عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ لہٰذا سیاسی مفاد پرستی کو بالائے طاق رکھ کراس روئے زمین پر انسانیت کی بقا کے لئے دنیا کی بااثر شخصیات کو حرکت میں آنا چاہئے اور اس خون خرابے کو روکنے کے لئے اقدامات کرنا چاہئے بصورت دیگر جو زمین انسانیت کو اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہے وہی زمین بے گناہوں کا قبرستان بن سکتی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ اسرائیل نے نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ساری دنیا کی مشترکہ ذمے داری ہے اس لئے اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ عام شہریوں، آبادیوں، اسپتالوں، صحافیوں کو نشانہ بنانا کھلم کھلا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، اگر اسرائیل کی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو فلسطین کے بعد ارد گرد کے دوسرے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ دنیا کی بڑی اور اثرو رسوخ رکھنے والی حکومتوں کا اس وقت اسرائیل پر دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرے اور وہاں موجود شہریوں کے لیے آنے والی بیرونی امداد کا راستہ نہ روکے، اگر فلسطینیوں کی جاری نسل کشی نہ روکی جا سکی تو یہ انسانیت کی ناکامی ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔