کیا دوسرے مذاہب کے خلاف فوبیا اور اسلاموفوبیا میں کوئی فرق ہے؟...رام پنیانی
امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے، اس کا میڈیا بھی دنیا کا طاقتور ترین ہے اور اسی کی وجہ سے دنیا بھر کے میڈیا نے ’اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی، جس نے اسلاموفوبیا کو جنم دیا
چند سال قبل پاکستان نے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ سال کے ایک دن کو ’اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن‘ کے طور پر منایا جائے۔ اس وقت کئی ممالک نے اس کے خلاف احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ بہت سے دوسرے مذاہب بھی فوبیا یعنی خوف کا شکار ہیں، جن میں ہندوستان بھی شامل تھا۔ قرارداد کی مخالفت کرنے والے ممالک کی تعداد کم تھی اور بالآخر اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو ’اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن‘ قرار دیا۔ بدقسمتی سے پچھلے مہینے اس دن پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔
اس سال اقوام متحدہ نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس مطالبے کو تسلیم کیا کہ اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے مخصوص کارروائی کے لیے ایک 'خصوصی ایلچی' مقرر کیا جائے۔ یہ مطالبہ بھی پاکستان کی طرف سے آیا اور ہندوستان سمیت کئی ممالک نے اس کی بھی مخالفت کی۔ قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں ہندوستان کے سفیر ٹی ایس ترومورتی نے کہا، ’’دنیا بھر میں مذاہب اور فرقوں کو نشانہ بنایا جانے والا تشدد بڑھ رہا ہے۔ کچھ یہودیوں کے خلاف، کچھ عیسائیوں کے خلاف اور کچھ ہندوؤں کے خلاف۔ بدھوں اور سکھوں کے خلاف بھی تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق دنیا میں بہت سے فوبیا ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا، ’’ہم سب جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ نے 16 نومبر کو رواداری کا دن قرار دیا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان تمام فوبیا سے نمٹنے کے لیے کثرتیت کافی ہے اور اسلاموفوبیا کے لیے الگ سے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
حقیقت کیا ہے؟ کیا دوسرے مذاہب کے خلاف فوبیا اور اسلاموفوبیا میں کوئی فرق ہے؟ یہ درست ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب کے لوگوں کو دنیا کے مختلف حصوں میں فوبیا کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر ہم جنوبی ایشیا کی بات کریں تو سری لنکا میں تامل ہندو اور پاکستان میں تمام ہندوؤں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح سری لنکا، پاکستان اور ہندوستان میں بھی عیسائیوں پر تشدد کیا گیا۔ وہیں، طالبان کی حکومت والے افغانستان میں رہنے والے سکھ ہر طرح سے پریشان ہیں۔
پھر اسلاموفوبیا دوسرے مذاہب کے فوبیا سے اتنا مختلف کیوں ہے کہ اقوام متحدہ کو ایک خاص دن کا اعلان کرنا پڑا اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک خصوصی ایلچی مقرر کرنا پڑا؟ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ عالمی سیاست پر اس وقت شناخت کے مسائل کا غلبہ ہے۔ سری لنکا میں ایل ٹی ٹی ای کے ارکان کے جبر کے پیچھے نسلی مسائل تھے۔ عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے عروج سے بہت پہلے، ہندوستان میں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے دھمکیاں دی گئیں اور ان کے تئیں نفرت کے جذبات پیدا ہوئے۔ جس کی وجہ سے ان پر تشدد بھی ہوا۔ تو پھر اسلاموفوبیا کیوں مختلف ہے اور یہ دوسرے مذہبی فوبیا سے خوفناک کیوں ہے؟
محض مذہب کی بنیاد پر کسی کو اذیت دینے یا اس سے نفرت کرنے کا جنون بہت پرانا ہے۔ اس معاملے میں اسلاموفوبیا ایک نیا رجحان ہے۔ اسلاموفوبیا 1970 کی دہائی میں اس وقت ابھرا جب آیت اللہ خمینی نے امریکہ کے کٹھ پتلی رضا شاہ پہلوی کو ہٹانے کے بعد ایران میں اقتدار سنبھالا۔ اس وقت امریکہ نے کہا تھا کہ اسلام دنیا کے لیے ایک نیا خطرہ ہے۔ 'ٹائم' میگزین کی کور اسٹوری کا عنوان ’اسلام ایز دی نیو تھریٹ‘ یعنی اسلام بطور نیا خطرہ تھا۔ نیا خظرہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ اس وقت امریکی میڈیا کمیونزم کو آزاد دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا تھا۔ آزاد دنیا کا مطلب ہے ’امریکہ کے زیر تسلط دنیا‘۔ اس وقت امریکہ کے سیاسی اور معاشی غلبہ کو صرف روس (سوویت یونین) کی قیادت میں سوشلسٹ گروپ ہی چیلنج کر رہا تھا۔ اس وقت امریکہ نے دنیا کو سمجھایا کہ کمیونزم اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ نظریہ جو دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی طرف سے پھیلایا جا رہا تھا، اسے پوری دنیا نے قبول کر لیا۔ اس سے کارل مارکس کا وہ قول ایک بار پھر درست ثابت ہوا کہ ’’حکمران طبقے کے نظریات ہی حکومت کرتے ہیں۔‘‘
رفتہ رفتہ سوشلسٹ روس کمزور ہوا اور پھر 1990 کی دہائی میں مکمل طور پر ٹوٹ گیا۔ اب دنیا کے سب سے طاقتور ملک کو لڑنے کے لیے ایک اور ‘دشمن‘ کی ضرورت تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اپنے کٹھ پتلی پاکستان میں مدارس قائم کر رہا تھا۔ محمود ممدانی نے اپنی کتاب ’گڈ مسلم، بیڈ مسلم‘ میں سی آئی اے کی دستاویزات کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ ان مدارس کا نصاب خود امریکہ نے تیار کیا۔ یہ نصاب اسلام کے ایک تنگ ورژن پر مبنی تھا۔ امریکہ نے ان مدارس سے فارغ التحصیل نوجوانوں پر 800 کروڑ ڈالر اور 7000 ٹن گولہ بارود بشمول اسٹرنگر میزائل خرچ کیا۔ ان نوجوانوں کو مجاہدین کہا گیا اور بعد میں ان سے طالبان اور القاعدہ نے جنم لیا۔ ہلیری کلنٹن نے کھلے عام کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں روسی کمیونسٹوں سے لڑنے کے لیے پرجوش نوجوان چاہتا ہے، اس لیے اس نے طالبان بنائے اور روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد اس نے طالبان کی مدد کرنا بھی چھوڑ دی۔
امریکہ کا مقصد مغربی ایشیا میں تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرنا تھا۔ ان کی تمام پالیسیاں اسی مقصد کو سامنے رکھ کر بنائی گئیں۔ 9/11، 2001 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں میں تقریباً 3000 بے گناہ لوگ مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں تمام مذاہب اور تمام ممالک کے لوگ شامل تھے۔ اسی کو بہانہ بنا کر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا جس میں 60 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کے بعد عراق پر اس بنیاد پر حملہ کیا گیا کہ اس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے لیکن عراق پر قبضہ کرنے کے بعد امریکہ کو وہاں ایک بھی ایسا ہتھیار نہیں ملا۔
امریکی میڈیا نے اسامہ بن لادن سے منسوب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد ’اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح وضع کی۔ امریکہ سیاسی، اقتصادی اور عسکری طور پر دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے۔ ظاہر ہے اس کا میڈیا بھی دنیا کا طاقتور ترین ہے۔ اسی کی وجہ سے دنیا بھر کے میڈیا نے ’اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی اور اسی سے اسلام فوبیا نے جنم لیا۔ کسی زمانے میں سیموئل ہنٹنگٹن کا ایک نظریہ بہت مشہور تھا۔ اسے کلیش آف سویلائزیشن یعنی تہذیبوں کا تصادم کہا جاتا تھا۔ اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ پسماندہ اسلامی تہذیب اور ترقی یافتہ مغربی تہذیب کے درمیان عالمی تصادم ہوگا۔
اسلاموفوبیا کی وجہ سے امریکہ میں ایک سکھ کو مسلمان سمجھ کر قتل کر دیا گیا۔ اسلاموفوبیا کی وجہ سے امریکہ میں ایک پادری نے قرآن کا نسخہ جلا دیا۔ پھر ایک امریکی عیسائی نے انوسینس آف مسلمز یعنی مسلمانوں کی معصومیت کے نام سے فلم بنائی۔ وائرل ہونے والی اس فلم کی ایک کلپ میں لمبی داڑھی والے مسلمانوں کو عیسائیوں پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ ہم سب کو ڈنمارک کی ایک میگزین میں شائع ہونے والا کارٹون یاد ہے جس میں حضرت محمد کو ان کی پگڑی میں چھپا ہوا بم دکھایا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ سب اس لیے ہوا کہ پوری دنیا میں اسلام کے تئیں خوف کا احساس پیدا کر دیا گیا۔ ہر کوئی یہ محسوس کرنے لگا کہ اسلام اور مسلمان دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں!
اقوام متحدہ نے تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ کو غلط ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اس نظریہ کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی مقرر کی۔ اس کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ جس میں ایک ہندوستانی رکن بھی تھا، کا عنوان تھا ’تہذیبوں کا اتحاد‘۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بنی نوع انسان نے جو بھی ترقی کی ہے اس میں تمام تہذیبوں، مذاہب اور ثقافتوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اب چونکہ دنیا پر امریکہ کا غلبہ ہے اس لیے اس رپورٹ کو میڈیا نے نظر انداز کر دیا اور اسلاموفوبیا جاری رہا۔
ہندوستان میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے کیونکہ فرقہ وارانہ سیاست کی وجہ سے مختلف برادریوں کے درمیان پہلے سے ہی دشمنی کا احساس تھا۔ عالمی اسلاموفوبیا نے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ کیا۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران، مسلم فرقہ پرست طاقتوں نے ہندوؤں کے خلاف نفرت پھیلائی اور ہندو فرقہ پرست طاقتوں (ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس) نے مسلمانوں کے خلاف۔ آزادی کے بعد مسلم فرقہ پرست طاقتیں کمزور ہوئیں جبکہ ہندو فرقہ پرست طاقتیں زیادہ طاقتور ہوئیں اور اس کی وجہ سے ملک میں اسلاموفوبیا موجود ہے۔ اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے اقدامات قابل ستائش اور امید افزا ہیں۔
(مضمون نگار مصنف آئی آئی ٹی ممبئی میں پڑھاتے ہیں اور 2007 کے لئے نیشنل کمیونل ہارمنی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔