کیا ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ ملک کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش ہے؟
اس کے بعد اقلیت مخالف مدعے حاوی ہو جائیں گے اور سڑک، بجلی اور پانی جیسے مسائل ان کے شور میں دب جائیں گے۔ کمیٹی کی یہ سفارشات ملک کو آگے لے جانے کے بجائے خرچوں کے نام پر پیچھے دھکیلتی ہوئی نظر آتی ہیں
’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی جو گزشتہ سال صدا بلند ہوئی تھی، اس نے ایک ہنگامہ خیز شکل اختیار کر لی ہے۔ حکومت نے گزشتہ سال ستمبر میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں حکومت کی مرضی کے مطابق سفارشات پیش کر دی ہیں۔ کمیٹی کی تشکیل کو لے کر ہی بہت سے سوالات اٹھے تھے لیکن حکومت کی تشکیل شدہ اس کمیٹی نے سوالات کی پروا کیے بغیر اپنا کام شروع کر دیا اور اب اپنی رپورٹ بھی پیش کر دی ہے۔
واضح رہے، اس کمیٹی کی صدارت ملک کے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے کی تھی اور اس کے ایک رکن جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد بھی تھے، جنہوں نے کانگریس سے طویل عرصے تک جڑے رہنے کے بعد حال ہی میں علیحدگی اختیار کی تھی۔ غلام نبی آزاد اور کمیٹی کے دیگر ارکان پر کوئی تبصرہ نہیں ہوا لیکن سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے اس سیاسی کمیٹی کی صدارت کرنے پر کافی تبصرے ہوئے۔ تکنیکی اعتبار سے کسی سابق صدر کا کسی کمیٹی کی صدارت کرنا غلط نہیں ہے لیکن حکومت کو ایسا کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے تھا اور اگر حکومت نے ایسا کر بھی دیا تھا تو سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو ایسی کمیٹی کی صدارت سے خود انکار کر دینا چاہیے تھا۔
ویسے کمیٹی کی تشکیل کو لے کر بحث کرنا فضول ہے اور اس کمیٹی کی سفارشات اور ان پر عملدرآمد کو موضوع بحث بنانا چاہیے۔ سوال ہے کہ کمیٹی کی سفارشات کا ملک کی سیاست اور اس کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟ دراصل، 1967 تک اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات ایک ساتھ ہوتے رہے تھے لیکن کچھ ریاستی اسمبلیوں کے وقت سے پہلے تحلیل ہونے کی وجہ سے اسمبلی اور عام انتخابات الگ الگ ہونے شروع ہو گئے۔ جیسے جیسے حالات بدلتے ہیں، ویسے ویسے فیصلے بھی بدلتے ہیں لیکن اگر فیصلہ کی سوئی کو ماضی کی طرف موڑ کر یہ دعویٰ کیا جائے کہ اس سے اخراجات میں کمی آئے گی یا تمام مسائل حل ہو جائیں گے، تو یہ خام خیالی سے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
آزادی کے بعد 17 سال کی مدت بہت کم ہوتی ہے اور اس دور میں عوام کی اکثریت نئی نئی آزادی کے نشے میں ہوتی ہے اور حکومتیں بھی ایک ہی طرز کی یا ایک ہی پارٹی کی بنتی ہیں۔ جیسے ہی ملک آگے بڑھتا ہے، حکومتیں بھی بدلتی ہیں اور ریاستی حکومتوں میں وفاداریاں بھی تبدیل ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں نئی پارٹی اقتدار سنبھالتی ہے۔ یہ ایک اچھی جمہوریت کی نشانی ہے اور اس سے عوام میں بھی اپنی نمائندگی کا احساس مضبوط ہوتا ہے۔
اگر کمیٹی کی سفارشات پر عمل کیا جاتا ہے تو سال 2029 تک تمام ریاستوں میں حکومت قائم رہے گی اور اگر کچھ اسمبلیوں کی مدت کار نامکمل ہوگی، جیسے اتر پردیش میں انتخابات سال 2027 میں ہونے ہیں، تو وہاں صرف دو سال کے لیے انتخابات ہوں گے اور اگر کمیٹی کی سفارشات کے قانون بننے یعنی نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد کوئی ریاستی حکومت گر جاتی ہے تو وہاں بھی انتخابات سال 2029 تک کے لیے ہی ہوں گے اور پھر اس کے بعد ہی 5 سالہ مدت پوری کرنے کے لیے انتخابات ہوں گے۔ اس سے نہ تو خرچ میں کوئی خاص کمی آئے گی اور نہ ہی جمہوریت کو فروغ ملے گا۔
یہ موجودہ حکومت کے ذہن میں اس لیے آیا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ اگر ایک ساتھ انتخابات ہوئے تو عوام ایک چہرے، یعنی وزیر اعظم کے چہرے پر ہی ووٹ دیں گے۔ سب سے پہلا نقصان موجودہ مخلوط حکومت کو ہوگا، کیونکہ اس سے مخلوط حکومتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ بہت سی سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جو ریاست میں ایک دوسرے کے خلاف انتخابات لڑتی ہیں لیکن مرکز کے لیے وہ اتحاد میں شامل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس بائیں محاذ اور کانگریس کے خلاف لڑتی ہے لیکن مرکز کے لیے انہی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرتی ہے۔
اتحادی سیاست کی حوصلہ شکنی کے علاوہ یہ سفارشات عوام کے بنیادی انتخابی مدعوں کو بھی نظر انداز کرنے پر مجبور کریں گی، کیونکہ اسمبلی کے انتخابی مدعے کچھ اور ہوتے ہیں اور مرکزی حکومت کے انتخابات کسی اور مدعے پر لڑے جاتے ہیں۔ یعنی اقلیت مخالف مدعے حاوی ہو جائیں گے اور سڑک، بجلی اور پانی جیسے مسائل ان کے شور میں دب جائیں گے۔ کمیٹی کی یہ سفارشات ملک کو آگے لے جانے کے بجائے خرچوں کے نام پر پیچھے دھکیلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔