موضوع گفتگو چہرہ: اقرا حسن
اقرا حسن نے جتا دیا کہ وہ جہاں عوامی مسائل کو اٹھانے کی اہلیت رکھتی ہیں وہیں وہ آئین و قانون کی بھی جانکار ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں کہ انھوں نے یونیورسٹی آف لندن سے انٹرنیشنل لا اینڈ پالیٹکس کی ڈگری لی ہے
الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور میڈیا کے دیگر تمام پلیٹ فارموں پر اگر کوئی چہرہ مرکز نگاہ ہے تو وہ اقرا حسن کا ہے۔ اگر کوئی شخصیت موضوع گفتگو ہے تو وہ اقرا حسن کی ہے۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والوں میں جتنی مقبولیت اقرا کو ملی اتنی کسی کو نہیں ملی۔ حالانکہ ملک میں ایک سے ایک دبنگ سیاست داں موجود ہیں جنھوں نے اپنے اپنے وقتوں میں تہلکہ مچایا لیکن اقرا نے پہلی ہی کامیابی میں اپنی شرافت و شائستگی، متوازن گفتگو اور سادگی سے ایک زمانے کو متاثر کیا ہے۔ انتخابات میں کامیاب ہونے والوں میں سے اگر مختلف مقامات سے کسی رکن پارلیمنٹ کی سب سے زیادہ مانگ ہے تو وہ اقرا حسن کی ہے۔ پارلیمنٹ میں کی گئی کسی کی تقریر کی اگر سب سے زیادہ تعریف ہو رہی ہے تو اقرا کی ہو رہی ہے۔
انھوں نے جب انتخابی مہم کے دوران میڈیا اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے خیالات رکھے تھے تو کسی کو ان کی کامیابی کا مکمل یقین نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنی مہم میں مصروف رہیں۔ انھوں نے کسی کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ کسی کے بارے میں کوئی ہلکی اور معیار سے گری بات نہیں کی۔ انتخاب جیتنے کے بعد بھی ان کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ان کے اندر بظاہر غرور اور تکبر نہیں آیا اور جس طرح شرافت و شائستگی سے وہ پہلے گفتگو کرتی تھیں اسی طرح اب بھی کرتی ہیں۔ جب انھوں نے لوک سبھا میں اپنی رکنیت کا حلف لیا تو انھوں نے اپنے انداز سے بھی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور ایک سنجیدہ سیاست داں ہونے کا ثبوت دیا۔
جب انھوں نے پارلیمانی اجلاس میں تقریر کی تو اس وقت بھی انھوں نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ انھوں نے اپنے خیالات سے یہ بتا اور جتا دیا کہ وہ کسی ایک مخصوص فرقے کی نمائندہ نہیں بلکہ اپنے حلقے کے تمام عوام کی نمائندہ ہیں اور ان تمام لوگوں کے مسائل کو اٹھانا ان کے اوپر فرض ہے۔ انھوں نے بی جے پی کے بعض ارکان کے مانند یہ نہیں کہا کہ انھیں جن لوگوں نے ووٹ نہیں دیا وہ ان کے لیے کام نہیں کریں گی۔ بلکہ اگر پارلیمنٹ میں رکھے گئے ان کے مطالبات پر غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انھوں نے وہ مسائل اٹھائے اور وہ مطالبات رکھے جن کا سروکار عوام سے ہے۔ نہ ہندوؤں سے ہے نہ مسلمانوں سے ہے۔
انھوں نے 26 جولائی کو لوک سبھا میں اپنی پہلی تقریر میں شاملی، پریاگ راج اور ویشنو دیوی کے درمیان ریل رابطے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کیرانہ میں وزارت ریلوے سے متعلق مختلف مسائل عرصہ دراز سے زیر التوا ہیں۔ عوام الناس کی سہولت کے لیے ان کا مکمل ہونا بہت ضروری ہے۔ پانی پت کیرانہ میرٹھ ریلوے روٹ کا سروے کئی بار ہو چکا ہے لیکن اب تک اس ریلوے روٹ پر کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔ اس سے ہر شخص کی زندگی متاثر ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی معاشرے سے تعلق رکھتا ہو۔ انھوں نے اپنے حلقے کیرانہ میں تعلیمی اداروں کے کھولنے پر بھی زور دیا۔
انھوں نے اپنی تقریر سے یہ بھی جتا دیا کہ وہ جہاں عوامی مسائل کو اٹھانے کی اہلیت رکھتی ہیں وہیں وہ آئین و قانون کی بھی جانکار ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں کہ انھوں نے یونیورسٹی آف لندن سے انٹرنیشنل لا اینڈ پالیٹکس کی ڈگری لی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اترپردیش کی حکومت نے تبدیلی مذہب کے خلاف ایک سخت قانون منظور کیا ہے جس میں پہلے کی سزا کو بڑھا دیا گیا ہے۔ پہلے جبراً تبدیلی مذہب کی سزا دس سال تھی اب اسے بیس سال یا عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ ایسی شادیاں ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرانے کی نیت سے کی جاتی ہیں۔ جبکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملک کا آئین کسی کو بھی تبدیلی مذہب کا اختیار دیتا ہے۔ اقرا حسن نے اس مسئلے پر بھی ایوان میں اپنی بات رکھی۔
اقرا ایک سیاسی خاندان کی فرد ہیں۔ سیاست ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ ان کے دادا، والد، والدہ اور بھائی سب کا ساست سے رشتہ رہا ہے۔ بھائی ناہید حسن یوپی اسمبلی کے رکن ہیں۔ ان کے دادا اختر حسن، والد منور حسن اور والدہ تبسم جعفری بھی رکن پارلیمنٹ رہے ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست داں ہیں۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کیرانہ میں حاصل کی۔ کوئینز میری اسکول دہلی سے بارہویں پاس کیا۔ لیڈی شری رام کالج دہلی سے گریجویشن کیا۔ دہلی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔ یونیورسٹی آف لندن سے بین الاقوامی قانون اور سیاست میں پوسٹ گریجویشن کیا۔ وہ لندن میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرکے سرخیوں میں آئی تھیں۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 2021 میں گھر واپس آئیں۔
ان کے بھائی ناہید حسن 2022 کے اسمبلی انتخابات کے پہلے سے ہی جیل میں تھے۔ اس وقت اقرا نے ان کی انتخابی کمان سنبھالی اور اپنے بھائی کو کامیاب کرایا۔ یہیں سے ان کی سیاسی اور انتظامی صلاحیتوں کا لوگوں نے مشاہدہ کیا۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں سماجوادی پارٹی نے ان کو ان کی خاندانی سیٹ کیرانہ سے امیدوار بنایا۔ انھوں نے اپنی محنت اور پرکشش شخصیت اور خلوص آمیز گفتگو سے عوام کے دلو ں میں گھر کر لیا۔ ان کا مقابلہ بی جے پی آر ایل ڈی کے امیدوار پردیپ چودھری سے تھا۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک اور کیشو پریاد موریہ اور آر ایل ڈی کے قومی صدر جینت چودھری سب نے مہم چلائی لیکن اقرا انتخابی میدان میں اکیلے ڈٹی رہیں۔ وہ شہر سے گاؤں اور دیہی علاقوں تک پگڈنڈیوں پر اکیلی چلیں اور اس طرح انھوں نے کامیابی کی کہانی لکھ دی۔ انھوں نے اپنے حریف کو 69 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہرایا۔
کیرانہ فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے ایک حساس حلقہ ہے۔ 2013 میں مظفر نگر میں ہونے والے بھیانک فساد کی آگ کیرانہ میں بھی پہنچی اور وہ بھی اس کی چپیٹ میں آگیا۔ فسادات کے نتیجے میں بی جے پی کو 2014 کے انتخابات میں کامیابی ملی۔ اس حلقے میں حسن خاندان اور بی جے پی کے حکم دیو سنگھ خاندان میں مقابلہ چلتا رہا ہے۔ حکم دیو بھی وہاں سے منتخب ہوئے تھے۔ ان کے بعد ان کی بیٹی نے الیکشن لڑا۔ حکم دیو نے کیرانہ سے ہندوؤں کے مبینہ ترک سکونت کا مسئلہ اٹھا کر ملک کے ہندوؤں کی توجہ اپنی جانب منعطف کر لی تھی۔ حالانکہ بعد میں جانچ کے دوران ان کا دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ اب حکم دیو خاندان وہاں کی سیاست سے خارج ہو چکا ہے۔
بہرحال اقرا کو زبردست پذیرائی مل رہی ہے جو ان کے لیے مصیبت بھی بن سکتی ہے۔ سیاست میں سب کچھ چلتا ہے۔ ان کے مخالفین اور حاسدین ان کے خلاف کوئی بھی سازش کر سکتے ہیں۔ انھیں بہت محتاط ہو کر چلنا ہوگا اور مقبولیت کے نشے میں گرفتار ہونے سے بچتے ہوئے اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔ اپنے ذہن و دماغ کو اعتدال پر رکھنا ہوگا۔ سنبھل سنبھل کر بیان دینا اور تقریر کرنی ہوگی۔ جوش میں آنے کے بجائے ہوش میں رہنا ہوگا۔ ورنہ اگر کامیابی نے ان کے قدم ڈگمگا دیے تو وہ سیاست کی تاریک سرنگ میں گم بھی ہو سکتی ہیں۔ اور اگر انھوں نے خود کو سنبھالے رکھا تو سیاست میں بہت آگے جا سکتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔