اندرا گاندھی کا آخری لمحہ، قومی وقار کی خاطر جان کا نذرانہ
اندرا گاندھی نے قومی وقار اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اپنی زندگی سے زیادہ عزیز رکھا۔ ان کی موت کی داستان میں قومی یکجہتی اور خود اعتمادی کا جوہر نظر آتا ہے۔ یہ ان کی قربانی کو خراج تحسین ہے
یہ ذکر ہے 31 اکتوبر 1984 کا، جب میں اپنے گھر سے آفس کے لیے نکلا۔ صبح تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا۔ معمول کے برخلاف بس اور سڑکیں قدرے خالی تھیں۔ آفس پہنچ کر میری حیرانی اس وقت مزید بڑھ گئی جب میرے سینئر ساتھی نے مجھے بتایا، "اندرا گاندھی کو گولی مار دی گئی ہے۔" یہ خبر میرے پیروں تلے زمین نکال دینے کے لیے کافی تھی۔ فوراً ہم الٹے قدموں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس پہنچے۔ وہاں عوام اور صحافیوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اسپتال کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اندرا جی کو چھٹی منزل پر لے جایا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن جاری تھا۔ مگر کسی کو بھی اصل صورت حال معلوم نہیں ہو پا رہی تھی۔
دوسری جانب، برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے جلد ہی ان کے انتقال کی خبر دے دی۔ بی بی سی کے رپورٹر مارک تلی کے مطابق، اندرا گاندھی کی زندگی کا اختتام ہو چکا تھا، مگر آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ہندوستان کے صدر گیانی ذیل سنگھ اور پھر کلکتہ سے لوٹ کر راجیو گاندھی اسپتال پہنچے۔ دوپہر کے بعد، بالآخر آل انڈیا ریڈیو نے اندرا گاندھی کی موت کا اعلان کر دیا، اور اسی لمحے سے دہلی میں سکھ مخالف فسادات شروع ہو گئے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے تین دن تک دہلی کو جلتے اور سکھ برادری کو موت کے منہ میں جاتے دیکھا۔ سکھ مخالف جذبات کی لہر تیزی سے پھیل گئی اور پورے ملک میں یہ غصہ ابھرا۔
اندرا گاندھی کے قتل کا پس منظر کچھ اس طرح تھا کہ ان کے اپنے دو سکھ گارڈز، ستونت سنگھ اور بینت سنگھ نے ان پر گولیوں کی بارش کر دی تھی۔ یہ واقعہ ان کے اپنے گھر کے قریب، گیٹ کے پاس پیش آیا تھا۔ آپریشن بلو اسٹار کے بعد سے اندرا گاندھی پر دباؤ تھا کہ وہ اپنی سیکورٹی میں سکھ گارڈز نہ رکھیں، مگر وہ اس تجویز کو قبول نہیں کرتیں۔ مشہور مجاہدِ آزادی ارونا آصف علی نے انکشاف کیا کہ اندرا گاندھی کی موت سے دو دن قبل انہوں نے اندرا کو یہی مشورہ دیا تھا کہ سکھ گارڈز کو ہٹا دیں۔ اس پر اندرا نے ناراضگی سے جواب دیا، "ایک وزیر اعظم ہو کر اگر میں سکھ گارڈز کو ہٹاؤں تو اس کا پوری سکھ قوم پر کیا اثر پڑے گا؟"
اندرا جی کے اس جواب نے ثابت کر دیا کہ ان کے لیے قومی وقار اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی سب سے بڑھ کر تھی۔ ان کی موت کے بعد ان کے اس مؤقف کی تصدیق ان کی ایک اور قریبی دوست پوپل جیکر نے بھی کی، جو ان کے قریبی حلقے میں شامل تھیں۔ اندرا گاندھی کی جان گئی مگر انہوں نے اپنی اصول پرستی اور قومی یکجہتی پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
اندرا گاندھی کے انتقال کے بعد ملک بھر میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور اس کا سب سے زیادہ خمیازہ دہلی کی سکھ برادری کو بھگتنا پڑا۔ اندرا کے قتل کے ردعمل میں جنم لینے والے فسادات نے سینکڑوں سکھوں کی جان لی۔ اندرا گاندھی اگر زندہ ہوتیں تو شاید ان واقعات کو ہونے سے روکنے میں کامیاب رہتیں۔ انہیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کی فکر اپنی جان سے زیادہ تھی، اور اسی لیے انہوں نے سکھ گارڈز کو اپنی حفاظت میں رکھا۔ ان کا عزم ان کی موت کے بعد بھی ایک یادگار مثال بن گیا ہے۔
اندرا گاندھی کی شخصیت کا یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انہوں نے کسی خوف یا ذاتی مفاد کے بغیر قومی فلاح اور اصول پرستی کو اپنی زندگی میں مقدم رکھا۔ ان کے اندر قومی سلامتی کی فکر تو تھی مگر فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ان کا یقین ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔ گولڈن ٹیمپل میں آپریشن بلو اسٹار کی اجازت دینے کے باوجود، انہوں نے خود کو سکھ برادری سے علیحدہ نہیں کیا اور ان کی حفاظت کے لیے انہیں ہی چنا۔ اندرا گاندھی کا یہ فیصلہ ان کی اصول پرستی اور وقار کا آئینہ دار تھا اور ان کی قربانی کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔
اندرا گاندھی کی موت کے بعد جو فسادات برپا ہوئے، وہ بھارت کی سیکولر شناخت پر ایک بدنما داغ ہیں۔ اندرا گاندھی کی موت نے نہ صرف ایک مضبوط سیاسی قائد سے ملک کو محروم کر دیا بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ان کی جدوجہد کو بھی متاثر کیا۔ ان کی شخصیت آج بھی ایک آہنی عزم اور غیر متزلزل اصولوں کی علامت ہے، اور ان کی قربانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ قومی یکجہتی کے لیے جان دینا بھی کم نہیں۔
(ظفر آغا صاحب کا یہ مضمون قومی آواز پر ماضی میں بھی شائع ہو چکا ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔