مودی اور چندرچوڑ کی پوجا: عدلیہ کی ساکھ پر سوال؟... سہیل انجم

وزیر اعظم مودی کی چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے گھر گنیش پوجا میں شرکت پر بحث و مباحثہ شروع ہو گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے اور سیاسی مقاصد کے شبہ نے جنم لیا ہے

<div class="paragraphs"><p>سی جے آئی چندرچوڑ کی&nbsp; رہائش پر پوجا کرتے وزیر اعظم مودی / تصویر بشکریہ ایکس / @narendramodi</p></div>

سی جے آئی چندرچوڑ کی رہائش پر پوجا کرتے وزیر اعظم مودی / تصویر بشکریہ ایکس / @narendramodi

user

سہیل انجم

سیاست میں چھوٹے چھوٹے قدموں کے بھی بڑے معانی و مفاہیم ہوتے ہیں۔ چالاک سیاستدان اکثر و بیشتر زبان سے کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہاؤ بھاؤ اور اقدامات سے سیاسی تہلکہ مچا دیتے ہیں۔ تازہ واقعہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کے گھر گنیش کی پوجا میں وزیر اعظم نریندر مودی کا پہنچ جانا اور خود انہی کی جانب سے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے اس پوجا کی ویڈیو شیئر کرنا ہے۔ اس ویڈیو کا منظر عام پر آنا تھا کہ ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اس کا الگ الگ مفہوم نکالا جانے لگا۔ سب سے پہلے تو اسے مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات سے جوڑا گیا۔ تجزیہ کاروں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مہاراشٹر میں چند ماہ کے اندر ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں بی جے پی کی حالت پتلی ہے، لہذا وزیر اعظم نے چیف جسٹس کے گھر جا کر گنیش پوجا میں شرکت کر کے اسمبلی انتخابات کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ شبہ اس لیے پیدا ہوا کہ انہوں نے اس موقع پر مراٹھیوں کا سا لباس زیب تن کیا تھا۔ انہی کے مانند دھوتی پہنی اور وہاں کی ٹوپی لگائی تھی۔

لیکن جب دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو سپریم کورٹ سے ضمانت مل گئی اور شرائط میں کہا گیا کہ وہ اپنے آفس نہیں جا سکتے اور کسی فائل پر دستخط نہیں کر سکتے، یعنی ہریانہ میں انتخابی مہم چلا سکتے ہیں، تو پھر ان کی رہائی کو وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات سے جوڑا گیا۔ یہ کہا گیا کہ چونکہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں سیٹوں پر اتحاد نہیں ہو سکا اور ہریانہ میں بھی بی جے پی کی شکست یقینی ہے، لہذا انہیں اس لیے رہا کرایا گیا تاکہ وہ ہریانہ میں کانگریس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکیں۔ حالانکہ ہریانہ کی زمینی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہاں عام آدمی پارٹی کی کوئی بنیاد نہیں ہے، جبکہ کانگریس کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ اس لیے وہ اگر ووٹ کاٹیں گے بھی تو بی جے پی کے کاٹیں گے۔


بہرحال یہ سب قیاس آرائیاں اپنی جگہ پر ہیں لیکن چیف جسٹس کو جاننے والے کہتے ہیں کہ ان کی مودی سے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں ہوئی ہوگی اور دوسری بات یہ کہ اس ملاقات سے چیف جسٹس کے فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات نے عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے اور اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی اس موقع پر ان کے گھر اس لیے چلے گئے تاکہ ان کی ساکھ کو دھچکا لگایا جائے۔ دو ماہ کے بعد چندرچوڑ سبکدوش ہونے والے ہیں، اس لیے آخری وقت میں ان کے دامن کو داغدار کر دیا جائے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان تمام باتوں میں کہاں تک سچائی ہے لیکن متعدد قانونی ماہرین کی یہ رائے باوزن محسوس ہوتی ہے کہ اس ملاقات سے ایک غلط پیغام گیا ہے۔

اپوزیشن کی متعدد جماعتوں نے وزیر اعظم کے اس قدم کی مذمت کی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ایم پی، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کپل سبل وزیر اعظم کی جانب سے ویڈیو شیئر کرنے کو درست نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ جو لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں انہیں کسی نجی تقریب کی اس طرح تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔ کسی کو بھی خود کو ایسی پوزیشن میں نہیں ڈالنا چاہیے جہاں لوگ کسی ادارے کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جائیں۔ میں نے اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر جو دیکھا اس پر حیران رہ گیا۔ وزیر اعظم کو وہاں نہیں جانا چاہیے تھا۔ اس سے غلط پیغام جاتا ہے۔


شیو سینا (ادھو ٹھاکرے گروپ) کے ایم پی سبھا سنجے راوت کے مطابق چیف جسٹس کی سبکدوشی کے دن قریب آ رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم مودی نے ان کے گھر پوجا میں شرکت کی۔ اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کا مقصد مہاراشٹر کی غیر قانونی حکومت کو بچانا اور شیو سینا ادھو ٹھاکرے گروپ کو ختم کرنا ہے۔ یاد رہے کہ شیو سینا کی تقسیم اور ایکناتھ شندے گروپ کی حکومت سازی کا مقدمہ چیف جسٹس کی عدالت میں ہے۔ راوت نے کہا کہ اب ان حالات میں چیف جسٹس کو اس مقدمے کی سماعت سے خود کو الگ کر لینا چاہیے ورنہ شبہات پیدا ہوں گے۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی وزیر اعظم کے اس قدم پر تنقید کی ہے۔

جہاں تک قانون دانوں کی آراء کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کے مطابق چیف جسٹس کے گھر ایک نجی تقریب میں وزیر اعظم کی شرکت سے عدلیہ کی آزادی اور عوام کے حقوق کے تحفظ اور حکومت کی جواب دہی کو یقینی بنانے کے بارے میں پریشان کن پیغام جاتا ہے۔ معروف قانون دان اور سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندرا جے سنگھ کے خیال میں چیف جسٹس نے عدلیہ اور انتظامیہ کے الگ الگ اختیارات سے سمجھوتہ کر لیا۔ خیال رہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے الگ الگ اختیارات ہیں جن کو ایک دوسرے میں مدغم نہیں کرنا چاہیے ورنہ ان کی غیر جانبداری مشکوک ہو جاتی ہے۔


عدالتی ضابطہ اخلاق کے مطابق ججوں اور سیاست دانوں کو ایک دوسرے سے گھلنے ملنے سے بچنا چاہیے اور کسی جج کی سرکاری رہائش گاہ پر کسی سیاستدان کا جانا تو بالکل ہی غیر مناسب ہے۔ ہاں وہ عوامی تقریبات میں ساتھ ساتھ شریک ہو سکتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس آر ایم لودھا اسی جانب اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے الگ الگ آئینی اختیارات ہیں اور ان میں فاصلہ برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ میری یادداشت میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی وزیر اعظم نے چیف جسٹس کی سرکاری رہائش گاہ کا دورہ کیا ہو۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر کے مطابق وزیر اعظم کے اس دورے سے عوام میں عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ تاہم وہ نہیں سمجھتے کہ اس سے چیف جسٹس کے فیصلوں پر اثر پڑے گا۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان کہتے ہیں کہ کوئی ایسا قانون تو نہیں ہے کہ وزیر اعظم چیف جسٹس کے گھر منعقد ہونے والی کسی تقریب میں شرکت نہیں کر سکتے لیکن ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے اور روایات ہوتی ہیں جن کی پاسداری کی جانی چاہیے۔ چیف جسٹس کے گھر ہونے والی پوجا میں مودی کی شرکت سے عدلیہ کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ وہ خود مودی کو اس تقریب میں شرکت سے منع کر دیتے۔ نریندر مودی نے خود اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے اس ویڈیو کو جاری کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد زیریں عدالتوں کو کوئی پیغام دینا رہا ہوگا۔ ان حالات میں جبکہ مرکزی حکومت کی جانب سے دائر کردہ متعدد مقدمات خود چیف جسٹس کی عدالت میں ہیں، وزیر اعظم کا وہاں جانا شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ دیگر بہت سے قانونی ماہرین بھی اس ملاقات کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ وہ بھی اسی رائے کے حق میں ہیں کہ عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ چیف جسٹس نے خود ان کو مدعو کیا تھا یا وہ از خود چلے گئے تھے۔ چیف جسٹس کی ایمانداری کے پیش نظر سمجھا جا رہا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو مدعو نہیں کیا ہوگا۔


ادھر بی جے پی وزیر اعظم کے اس قدم کا دفاع کرتی ہے اور کہتی ہے کہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی افطار پارٹی میں اس وقت کے چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن نے شرکت کی تھی۔ لیکن بی جے پی کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ایک عوامی تقریب تھی۔ کسی بند کمرے میں ملاقات نہیں تھی۔ اور پھر وزیر اعظم چیف جسٹس کے گھر نہیں گئے تھے۔ بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے والے ایک پروگرام میں دونوں نے شرکت کی تھی۔ اس لیے بی جے پی کا اعتراض بے بنیاد اور غلط ہے۔ دوسری بات یہ کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نریندر مودی کی طرح اپنا ہر قدم سیاسی مقصد کے تحت نہیں اٹھاتے تھے۔ اس پروگرام کا اس پروگرام سے موازنہ سراسر غلط ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔