انڈیا اتحاد: خاموش سمندر میں اٹھتی لہریں
اگر یہ کہا جائے کہ حزب اختلاف کے اتحاد انڈیا نے سمندر کی خاموش سطح پر زبردست موجیں اٹھا دی ہیں اور ان موجوں کی چھینٹیں برسراقتدار اتحاد این ڈے اے کے دامن کو بھگو رہی ہیں تو شاید غلط نہیں ہوگا
اگر یہ کہا جائے کہ حزب اختلاف کے اتحاد انڈیا نے سمندر کی خاموش سطح پر زبردست موجیں اٹھا دی ہیں اور ان موجوں کی چھینٹیں برسراقتدار اتحاد این ڈے اے کے دامن کو بھگو رہی ہیں تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ جب بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپوزیشن پارٹیوں کو اکٹھا کرنے کی مہم شروع کی تھی تو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ مہم اس قدر کامیاب ہوگی کہ این ڈی اے مخالف بیشتر جماعتیں ایک چھتری کے نیچے جمع ہو کر مشترکہ انتخابی حکمت عملی طے کریں گی اور وزیر اعظم نریندر مودی سے دو بدو مقابلے پر آجائیں گی۔ جب بنگلور میں اس کا دوسرا اجلاس ہوا اور اتحاد کا نام ’انڈیا‘ رکھا گیا تو اس وقت بھی یہ اندزہ نہیں تھا کہ حکومت اور بی جے پی کو اس اتحاد سے اتنی زیادہ پریشانی ہوگی۔ اور جب ممبئی میں تیسرا اجلاس ہوا تو اس وقت بھی ایسا نہیں سمجھا جا رہا تھا کہ یہ اتحاد حکومت کو بہت اہم اعلانات کرنے پر مجبور کر دے گا۔
پٹنہ اجلاس کے موقع پر بی جے پی کی جانب سے یہ کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے یا اس کا مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی کہ اس بارات کا کوئی دولہا ہی نہیں ہے۔ لیکن جس طرح وہاں اپوزیشن رہنماؤں نے متحد ہونے کا اشارہ دیا اس نے بی جے پی کے حلقوں میں تشویش کی ہلکی سی لہر دوڑا دی تھی۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جب بنگلور میں 26 اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہونے والا تھا تو اسی روز این ڈی اے کے اجلاس کا اعلان کر دیا گیا اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اگر اپوزیشن کے اتحاد میں 26 جماعتیں ہیں تو این ڈی اے کے اتحاد میں 38 جماعتیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے متعدد جماعتیں ون مین شو ہیں اور انھوں نے گزشتہ پارلیمانی الیکشن لڑا ہی نہیں تھا۔
اس روز این ڈی اے کے اجلاس کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ میڈیا میں اپویشن کے اتحاد کی کوئی کوریج نہ ہو بلکہ صرف این ڈی اے کے اجلاس کی کوریج ہو۔ لیکن جب اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے اتحاد کا نام ’انڈیا‘ رکھا تو پھر گودی میڈیا پر بھی اسی کی کوریج ہوئی، این ڈی اے کی میٹنگ کی کوریج نہیں ہوئی۔ حالانکہ اس میٹنگ سے خود وزیر اعظم مودی نے خطاب کیا تھا۔ ادھر جب ممبئی میں 28 جماعتوں پر مشتمل انڈیا کی دو روزہ میٹنگ ہونے والی تھی اور یہ قیاس آرائی کی جا رہی تھی کہ وہ میٹنگ زبردست انداز میں کامیاب ہو سکتی ہے تو پھر میڈیا میں اس کی کوریج کو روکنے کے لیے حکومت نے ایک روز قبل رسوئی گیس کی قیمت میں دو سو روپے کی کمی کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے کا گودی میڈیا نے خوب پرچار کیا۔ لیکن اس کے باوجود انڈیا کی میٹنگ کی کوریج کو روکا نہیں جا سکا۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت کی پریشانی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے میٹنگ کے پہلے روز کی کارروائی کو میڈیا کی نظروں سے معدوم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کا اعلان کر دیا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اجلاس کا ایجنڈہ مخفی رکھا گیا۔ یہ ابھی تک نہیں بتایا گیا کہ یہ اجلاس کس مقصد سے بلایا جا رہا ہے یا اس میں کن امور پر بحث ہوگی۔ حالانکہ اس کا مانسون اجلاس ابھی چند روز قبل ہی ختم ہوا ہے۔ میڈیا اور تجزیہ کاروں کو یہ اندازہ لگانے کے لیے چھوڑ دیا گیا کہ اس خصوصی اجلاس میں کیا ہوگا۔ کیا کوئی بل پیش کیا جائے گا یا کوئی بڑا اعلان کیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں میں سے کوئی کہہ رہا ہے کہ مشترکہ سول کوڈ کا بل لایا جائے گا کوئی کہہ رہا ہے کہ خواتین کو ریزرویشن دینے کا بل لایا جائے گا تو کوئی کچھ اور کہہ رہا ہے۔
لیکن ابھی ممبئی اجلاس کا ایک دن باقی تھا۔ لہٰذا حکومت نے دوسرے دن یعنی جمعے کو اعلان کر دیا کہ ون نیشن ون الیکشن کے انعقاد کا جائزہ لینے کے لیے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی اس معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی اور حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ پورے دن اس پر بحث ہوتی رہی کہ کیا پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں اس سلسلے میں کوئی بل لایا جانے والا ہے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں ایک ساتھ پارلیمنٹ اور تمام اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں پیش آنے والی دشواریوں کا جائزہ لیا جاتا رہا۔
حکومت کے ان اقدامات سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت کو اس اتحاد سے پریشانی لاحق ہو گئی ہے اور دوسرے یہ کہ حکومت نہیں چاہتی کہ اپوزیشن کی سرگرمیوں کی میڈیا میں کوریج ہو۔ حکومت کے ان اقدامات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کی نظریں اپوزیشن کے اتحاد پر مرکوز ہیں اور حکومت ان کی توجہ دوسری جانب مبدول کرانا چاہتی ہے۔
ادھر جب سے اپوزیشن جماعتوں نے اتحاد کی پینگیں بڑھائی ہیں حکومت اور گودی میڈیا کی جانب سے اتحاد میں اختلافات کی خبریں پلانٹ کرائی جاتی رہی ہیں تاکہ عوام میں اس کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا داؤ شرد پوار پر لگایا جاتا رہا۔ ان کے بارے میں قسم قسم کی باتیں پھیلائی جاتی رہیں۔ ان کے بھتیجے اور بی جے پی حکومت میں شامل ہونے والے اجیت پوار کی ان سے ملاقات کروائی جاتی رہی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی کہ شرد پوار کی دلچسپی اپوزیشن کے اتحاد میں نہیں ہے۔ ایسی خبریں بھی شائع ہوتی رہیں کہ شرد پوار مودی حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔ لیکن ممبئی کے اجلاس نے یہ ثابت کر دیا کہ شرد پوار اپوزیشن اتحاد کے ساتھ ہیں۔ وہ کہیں بھی جانے والے نہیں ہیں۔
جہاں تک میڈیا کی نظروں سے انڈیا کے اجلاس کو دور کرنے کی بات ہے تو میڈیا میں اس کی زبردست کوریج ہوئی اور خاص طور پر سوشل میڈیا نے اس پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی۔ اس نے ممبئی اجلاس کے دوران ہونے والی تقاریر کو پورا کا پورا دکھایا اور یہ بھی بتایا کہ انڈیا نامی اتحاد نے ایک چودہ رکنی رابطہ کمیٹی تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ چار دیگر کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اس اتحاد میں نہ کوئی بڑا ہے نہ کوئی چھوٹا۔ سب برابر ہیں اور سب کو ایک دوسرے کے مساوی مقام دیا گیا ہے۔
اس طرح اپوزیشن کے اتحاد انڈیا نے ہندوستانی سیاست کے خاموش سمندر میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ اگر گودی میڈیا اس طوفان کو نہیں دکھا رہا تو کوئی بات نہیں غیر ملکی میڈیا دکھا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر جو کہ اس وقت سب سے طاقتور میڈیا ہے اس اتحاد کی خبروں کی بھرمار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس سے خاصی پریشان ہے۔ اسی لیے اس نے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہے اور ون نیشن ون الیکشن کی بات بھی شروع کر دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون کس پر بھاری پڑتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔