جمہوریت اور اکثریت پسندی میں فرق!... ندیم حسنین

اکثریت پسندی اس خیال پر مبنی ہے کہ اکثریتی برادری کو حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور اس پر کوئی روک نہیں ہے، اس کے برعکس روادار جمہوریت کی تعریف صرف منصفانہ اور آزادانہ انتخابات سے نہیں ہو سکتی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ندیم حسنین

ہندوستانی معاشرے میں کبھی ایسا بھی ہوگا یہ کبھی سوچا نہیں گیا تھا۔ اختلافات رہے، نااتفاقیاں رہیں، لیکن دلوں میں کبھی دوریاں نہیں رہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مسلمان نہ صرف ہندوستان بلکہ ہندوستانی تاریخ کا بھی اٹوٹ حصہ رہے ہیں۔ ان کا خون بھی مشترکہ مفادات میں ہندوستان کے خون میں جذب ہے۔ وہ ’مسلمان‘ بھی ہیں اور ’ہندوستانی‘ بھی ہیں۔ ان کی شناخت کے حوالہ سے کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔ حالیہ برسوں میں اس کی شبیہ خراب کرنے یا اسے ’غیر‘ قرار دینے کی جس طرح کی کوششیں کی گئیں، یہ گہری تشویش کا معاملہ ہے۔ ایسے بیانیہ کو تیار کرنے کے لئے جس طرح سوچے سمجھے طریقے سے دقیانوسی تانا بانا بُنا گیا وہ حیران کن ہے۔ انہیں ایک خاص فریم ورک میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ عمل لگاتار جاری ہے۔ یہاں دو حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔

پہلی بات یہ کہ ہندوستانی مسلمان معاشرے اور ثقافت کے تمام پہلوؤں میں مغربی ایشیائی، مشرق وسطی یا افریقی مسلمانوں سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ وہ خالصتاً ’ہندوستانی‘ ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ نہ تو ایک ’ثقافتی برادری‘ ہیں (چونکہ ہندوستانی مسلمان ایک مشترکہ ثقافت نہیں رکھتے اور وہ مختلف علاقائی ثقافتوں سے وابستہ ہیں) اور نہ ہی انہیں کسی خاص ذات سے تعلق رکھنے والی مذہبی آبادی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک انتہائی پیچیدہ ہندوستانی معاشرے کا حصہ ہیں جس میں مختلف زبانوں اور بولیوں کے ساتھ متنوع شناخت کی پرتیں موجود ہیں۔ انہیں لداخ جیسے علاقوں میں لسانی، صوبائی، نسلی زمرے میں دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ جموں اور کشمیر کے مختلف حصوں میں وہ گدّی اور بکریوال جیسے درج فہرست قبائل کے طور پر پائے جاتے ہیں۔ پورے ہندوستان میں وہ سنی، شیعہ، کھوجہ، بوہرہ، احمدیہ یا قادیانی کے طور پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث جیسے مسلکوں یا فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ وہ اشراف اور اجلاف جیسے کثیر پرت والے سماجی نظام میں رہتے ہیں۔ یعنی وہ یکساں آبادی نہیں ہیں، پھر بھی انہیں اس طرح پیش کیا جا رہا ہے گویا وہ نہ صرف اکثریتی معاشرے کے لیے بلکہ ملک کی وحدت و سالمیت کے لیے بھی سنگین خطرہ بن گئے ہیں۔ اس پروپیگنڈے نے حالیہ برسوں میں معاشرے میں بڑے پیمانے پر اقلیتی مسلمانوں اور کچھ حد تک عیسائیوں کے خلاف شدید نفرت کا ماحول پیدا کیا ہے۔ اس نفرت نے سماجی و سیاسی میدان میں مذہبی پولرائزیشن کو فروغ دیا ہے۔ انتخابات کے وقت جھوٹ اور نفرت کا یہ پروپیگنڈہ اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔


یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس جمہوریت اور اکثریت پسندی میں فرق نہیں کر پا رہا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ جمہوریت کی تعریف صرف منصفانہ اور آزادانہ انتخابات سے ہوتی ہے (منصفانہ اور آزادانہ انتخابات پہلے ہی زیربحث ہیں)۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایک اکثریتی طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے کسی بھی وقت اپنی مرضی اور پسند کو پورے معاشرے پر مسلط کرنے کا حق حاصل ہے تو یہ جمہوریت کے قتل کی طرف ایک فیصلہ کن قدم ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اکثریت پسندی اس خیال پر مبنی ہے کہ اکثریتی برادری کو حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کے برعکس لبرل جمہوریت کی تعریف صرف منصفانہ اور آزادانہ انتخابات سے نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اس کا جامع ہونا ضروری ہے، جہاں نظام اتفاق رائے سے چلتا ہے۔ جو معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرتا ہے اور جس میں کسی اقلیتی، مذہبی، لسانی، قبائلی، جنسی طبقہ کے لیے کوئی امتیاز نہ ہو۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اکثریت پسندی جب مذہبی بنیاد پرستی پر مرکوز ہو تو یہ مذہبی قوم پرستی میں تبدیل ہو جاتی ہے، جہاں مذہبی اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

اقلیتوں سے نفرت اکثریت پسندی کی خوراک اور پانی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان تیزی سے اکثریت پرستی کے جال میں پھنستا جا رہا ہے۔ پہلے یہ شاذ و نادر ہی ہوا کرتا تھا، اب یہ عام ہو چلا ہے اور اقلیتیں اس میں پِس رہی ہیں۔ قابل غور لیکن خطرناک بات یہ بھی ہے کہ ہندوستانی سماج جس طرح سے دو حصوں میں منقسم نظر آ رہا ہے اس میں اگر آپ اکثریت پسند بیانیہ سے متفق نہیں ہیں تو آپ جہادی، اربن نکسل یا آئی ایس آئی کے ایجنٹ قرار دیے جا سکتے ہیں، اور کوئی بھی، کہیں بھی اس طرح کا اعلان کر سکتا ہے!


ایسا لگتا ہے کہ پسماندگی کے عمل میں مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ دوسرے درجے کا شہری بننا قبول کریں اور آخرکار ’کہیں کا بھی نہیں‘ ہو کر رہ جائیں۔ یہ عزت نفس کے ساتھ جینے کی اس کی ہمت کو سبوتاژ کرنے کے منصوبے کا حصہ نظر آتا ہے۔ اکثریت پسند قوم کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اکثریتی برادری کو ووٹ بینک میں منظم کیا جائے۔ تمام سماجی تنوع پر مشتمل معاشرے کے فخر کو خارج کرتے ہوئے یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسے ایک مشترکہ دشمن کا سامنا ہو اور ایک ’خطرناک اقلیت‘ اس خانہ میں آسانی سے فٹ ہو جائے۔ یعنی اقلیتوں کو پسماندہ کرنے کی ایسی ترکیب جہاں وہ ملک کی سیاسی زندگی میں بھی غیر متعلق ہو جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ ہماری موجودہ ہندوستانی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی سب سے کم ہے اور کئی ریاستی اسمبلیوں میں یہ صفر ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کو غائب کر دینے کی مہم کا آغاز مغل حکمرانوں کے ناموں والے شہروں اور مقامات کے نام کی تبدیلی سے ہوا۔ اگلے مرحلے میں غالباً وہ نام یا الفاظ ہی تبدیل کر دیے جائیں جو ’اردو‘ یا ’مسلم‘ نما نظر آتے ہوں۔ انہیں تاریخ سے نکالا جا رہا ہے۔ تاریخ کی نصابی کتابیں یا تو انہیں نظر انداز کرتی ہیں یا ایسے ویلن کے طور پر پیش کرتی ہیں جیسے ان کا قوم کی تعمیر میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

ملک کی موجودہ سیاسی طاقت تو انہیں صرف حاشیے پر دھکیل رہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مہم کو اکثرتی طبقہ کی حمایت جانے انجانے حاصل ہو رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو اس سے متفق نہیں ہیں انہیں بھی یہ مسئلہ زیادہ سنگین نظر نہیں آتا۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خون کے کینسر جیسی جان لیوا بیماری بھی ہلکے بخار سے شروع ہوتی ہے۔

اتنی بڑی نظر انداز کی گئی، غیر مطمئن، مایوس اور بیگانہ اقلیتی آبادی کے ساتھ کوئی قوم امن اور ترقی کی راہ پر کیسے گامزن ہو سکتی ہے، قوم اور وسیع تر معاشرے کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Aug 2022, 12:11 AM