گزشتہ 10 سالوں میں بنے کئی قوانین یا قوانین میں کی گئیں ترامیم امتیازی سلوک کی واضح مثال، آئیے کچھ قوانین پر ڈالیں نظر

اب جب کہ ہم ایک بار پھر اگلے پانچ سال کے لیے مرکز میں حکومت کا انتخاب کر رہے ہیں تو یہ سمجھنے کا وقت ہے کہ پچھلی دہائی میں ہمارے لیے جو قوانین بنائے گئے تھے ان میں کتنی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>پارلیمنٹ/ تصویر: یو این آئی</p></div>

پارلیمنٹ/ تصویر: یو این آئی

user

آکار پٹیل

پارلیمنٹ کا بنیادی کام قانون بنانا ہے۔ جب ہم لوگوں کو لوک سبھا کے لیے منتخب کرتے ہیں تو ہم گویا ایسے لوگوں کو منتخب کر رہے ہوتے ہیں جو ہمارے لیے قانون بنائیں گے اور انہیں پاس کریں گے۔ لیکن آج ہندوستان میں مرکز اور ریاستوں میں بغیر کسی بحث کے قوانین پاس کیے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی اکثریتی پارٹی اور نظریہ اپنی مرضی کا قانون بغیر کسی روک ٹوک کے بنا سکتی ہے۔

اب جب کہ ہم ایک بار پھر اگلے پانچ سال کے لیے انتخاب کر رہے ہیں تو یہ جاننے و سمجھنے کا وقت ہے کہ کتنے ایسے قوانین میں بدلاؤ کیے گئے ہیں جو ہمارے لیے گزشتہ دہائی میں بنائے گئے تھے۔

حقِ معلومات (ترمیمی) ایکٹ 2019 (آر ٹی آئی)

آر ٹی آئی ایکٹ میں ترمیم کرکے مرکزی حکومت کو یہ طاقت دے دی گئی ہے کہ وہ مرکز اور ریاستوں کے انفارمیشن کمشنروں کی ملازمتوں کی شرائط اور تنخواہوں کا تعین کر سکے۔ مقررہ مدت ملازمت اور شرائط کے بجائے اب انفارمیشن کمشنروں کو من مانی شرائط اور تنخواہوں پر تعینات کیا جا سکے گا۔ آر ٹی آئی ریٹنگ میں ہندوستان 2014 میں دوسرے نمبر پر تھا، اب نیچے کھسک کر 9 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ترمیمی ایکٹ 2019 (یواے پی اے)

یو اے پی اے کے تحت اس قانون میں ترمیم سے پہلے صرف تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا تھا، مگر اب حکومت کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ڈال سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس شخص کا تعلق ان 36 تنظیموں میں سے کسی سے ہو جنہیں قانون کے تحت دہشت گرد تنظیموں میں شمار کیا گیا ہے۔

کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ (1983) آرڈر 2022

کرناٹک حکومت نے 2022 میں مسلم خواتین اور لڑکیوں کو ان اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پہننے پر پابندی لگا دی تھی جہاں یونیفارم کا رواج تھا۔ یہاں تک کہ ایسے کالج جہاں یونیفارم پہننا لازمی نہیں تھا وہاں بھی خواتین کو سر ڈھانپنے والے حجاب پہننے سے روک دیا گیا۔ دلیل دی گئی کہ اس سے ’مساوات، سالمیت اور امن و امان‘ متاثر ہوتا ہے اور اسے نہیں پہنا جانا چاہئے۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ) اس حکم سے سکھ برادری کو الگ رکھا گیا۔

مہاراشٹر وائلڈ لائف کنزرویشن (ترمیمی) ایکٹ 2015

وزیر اعظم کے ذریعے اپنی تقریروں میں پنک ریوولیوشن کی باتیں کیے جانے کے بعد کئی ریاستوں نے اپنے یہاں بیف رکھنے کو جرم قرار دینا شروع کردیا۔ اس سے ملک بھر میں کئی جگہ پرتشدد حملے ہوئے جسے میڈیا نے بیف لنچنگ کا نام دیا۔ کوئی اگر مبینہ طور پر بیف سنڈویچ لے کر جاتا ہوا پکڑا گیا تو اسے پانچ سال تک کی جیل ہو سکتی تھی۔ دوسری بی جے پی ریاستوں نے بھی اس قانون کا نقل کیا۔

ہریانہ گائے نسل کا تحفظ اور گائے افزائش کا ایکٹ 2015

اس قانون کے تحت گائے کا گوشت پائے جانے پر پانچ سال تک کی قید کی سزا کا انتظام کیا گیا اور خود کو بے قصور ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی ملزم پر ڈال دی گئی۔

گجرات اینیمل پروٹیکشن (ترمیمی) ایکٹ 2017

اس قانون کے تحت گائے ذبح کرنے پر عمر قید تک کی سزا کا انتظام کیا گیا۔ اس کے علاوہ کسی بھی معاشی جرم میں ایسی سزا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گجرات کے وزیر مملکت برائے داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ کا بیان آیا کہ اس کا مطلب ہے کہ گائے کے ذبیحہ کو انسانی قتل سمجھا جائے۔

اتر پردیش عوامی اور نجی املاک نقصان وصولی ایکٹ 2020

اتر پردیش حکومت نے یہ قانون اتر پردیش میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے 21 لوگوں کی پولیس فائرنگ سے موت کے بعد بنایا۔ اس کے تحت حکومت کو یہ اختیارات مل گئے کہ اگر ہنگاموں، ہڑتالوں، بند یا عوامی احتجاج اور مظاہروں کے دوران کسی سرکاری یا غیر سرکاری املاک کا نقصان ہوتا ہے تو حکومت اس کا ہرجانہ مظاہرین سے وصول کرے گی۔ اس ضمن میں ٹربیونل کے ذریعے دیے گئے تمام فیصلے حتمی ہوں گے اور انہیں اس ایکٹ کے سیکشن 22 کے تحت کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2018

ان سات قوانین میں سے یہ پہلا قانون تھا جسے اتراکھنڈ میں بی جے پی حکومت نے اسمبلی میں متعارف کرایا اور پاس کیا۔ ایسا اس وقت کیا گیا جب ریاست میں لو جہاد کے معاملے بڑھنے کے الزامات لگائے جانے لگے۔ اس قانون کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان شادی کو جرم قرار دیا گیا بشرطیکہ کسی کا مذہب زبردستی تبدیل کرایا گیا ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے موروثی مذہب میں واپس آرہا ہے تو اسے مذہب کی تبدیلی نہیں مانا جائے گا۔ ایسے لوگ جو حکومت سے مقررہ فارم میں درخواست دیے اور اجازت حاصل کیے بغیر مذہب تبدیل کریں گے تو انہیں مجرم تصور کیا جائے گا اور پولیس کی تفتیش کے بعد انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔


ہماچل پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2019

اتراکھنڈ کی طرح ہماچل میں بھی اس قانون کے تحت سات سال قید کی سزا کا انتظام کیا گیا۔

اتر پردیش غیر قانونی مذہب تبدیلی ممانعت آرڈیننس 2020

پہلے کے قوانین کی طرح اس قانون میں بھی مذہب کی تبدیلی کو ممنوع قرار دیا گیا سوائے اس کے کہ حکومت سے اجازت لی گئی ہو اور 60 دن کا نوٹس دیا گیا ہو۔

اسی طرح کے قوانین مدھیہ پردیش میں 2021 میں، گجرات میں 2021 میں، کرناٹک میں 2022 میں اور ہریانہ میں 2022 میں بنائے گئے۔

ٹیمپریری سسپنشن آف ٹیلی کام سروسیس (پبلک ایمرجنسی یا پبلک سیفٹی) رولس 2017

ان قوانین کے تحت مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو یہ طاقت مل گئی کہ وہ کسی بھی وجہ سے کہیں بھی موبائل اور انٹرنیٹ خدمات بند کردیں۔ انٹرنیٹ بند ہونے کے معاملے میں بھارت سرفہرست ملک ہے۔ 2019 میں پوری دنیا میں ہوئے کل 213 انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے سب سے زیادہ یعنی 56 فیصدی (دوسرے نمبر کے ملک وینزویلا سے 12 گنا زیادہ) ہندوستان میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کیا گیا۔ 2020 میں پوری دنیا میں ہوئے کل 155 انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن میں 70 فیصدی معاملے ہندوستان کے ہیں۔

گجرات غیر منقولہ املاک منتقل، بے دخلی اور کرائے داروں کا تحفظ ایکٹ 2019 ترمیم

اس قانون کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں پر حکومت کی اجازت کے بغیر ایک دوسرے کی جائیداد خریدنے یا کرائے پر لینے پر پابندی لگا دی گئی۔ حکومت ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ کسی جائیداد کی خرید و فروخت سے کسی علاقے میں لوگوں کے پولرائزیشن یا کسی خاص کمیونٹی میں اضافہ ہوگا یا نہیں۔ اس قانون سے حکومت کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ اپنی مرضی سے ایسے سودوں کو منسوخ کر دے۔ بھلے ہی خریدار اور بیچنے والے دونوں نے اس پر کوئی اعتراض یا اپیل نہ کی ہو۔ گجرات میں غیر ملکیوں کو تو ایسی جگہوں پر جائیدادیں خریدنے کی اجازت ہے لیکن ہندوستانی مسلمانوں کو نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ایسے قوانین ابھی بھی کچھ ریاستوں میں برقرار ہیں، بھلے ہی وہاں کی سرکاریں تبدیل ہو گئی ہوں۔ ان قوانین کا طویل مدتی اثر ہوا ہے اور پولیس، انتظامیہ اور افسران نے ایک خاص کمیونٹی کو ایک خاص طریقے سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ وہ تصاویر ہیں جو ہمارے ملک کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں اور اشارہ کرتی ہیں کہ آنے والے وقت میں انتخابات کے بعد اور کیا کچھ ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔