جس ملک میں کئی وزرائے اعلیٰ مسلمان رہے، اس کی وزارتی کونسل میں ایک بھی مسلمان نہیں!...سید خرم رضا
این ڈی اے حکومت کو اس جانب غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس ملک میں کئی وزرائے اعلی مسلمان رہے ہوں ان میں ایسی کون سی پستی آ گئی کہ اب کوئی وزیر بننے کے لائق بھی نہیں رہا
انتخابی نتائج کے بعد حکومت سازی مکمل ہو چکی ہے اور وزیر اعظم بیرون ملک کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔ نتائج بی جے پی کے لئے اچھے نہیں رہے لیکن اس نے باقی اتحادیوں کے ساتھ اکثریت حاصل کر لی، جس کی وجہ سے بی جے پی کی قیادت والا اتحاد این ڈی اے بر سر اقتدار آ گیا اور کانگریس کی اکثریت والا انڈیا نامی اتحاد مرکز میں حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ انتخابی لڑائی ’ہندوتوا بمقابلہ آئین بچاؤ‘ میں بدل گئی تھی، جس میں ایک بڑی تعداد آئین کے بچاؤ میں آگے آئی اور ہندوتوا کی علمبردار سیاسی تنظیم بی جے پی کو اکثریت حاصل کرنے سے روک دیا، اور اس میں دلتوں اور مسلمانوں کا کردار اہم رہا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انڈیا نامی اتحاد کی لڑائی میں ہندوستانی مسلمان پیش پیش رہے اور اس کا اندازہ موجودہ حکومت کی وزراء کونسل کی حلف برداری تقریب سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ موجودہ حلف برداری کی تقریب میں کسی مسلمان کو وزیر نہیں بنایا گیا اور اس میں جیتنے کی کوئی شرط نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ دو وزراء ایسے بھی ہیں جو پارلیمنٹ کے کسی ایوان کے رکن بھی نہیں ہیں، پھر بھی ان کو حلف دلایا گیا۔ موجودہ حکومت نے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا مخالف سمجھ لیا ہے اور وہ ان کو منانے کی سمت میں کوئی قدم اس لئے نہیں اٹھا رہی کیونکہ ایسا کرنے پر اس کے حامی ناراض ہو جائیں گے اور ان کے پاس سے ہندوتوا کے علمبردار ہونے کا پلیٹ فارم کھسک جائے گا۔
بی جے پی کے قیادت والے این ڈی اے اتحاد کی حکومت پہلی مرتبہ قائم نہیں ہوئی ہے۔ اس سے پہلے اٹل بہاری واجپئی ملک کی قیادت کر چکے ہیں، جن کی وزارتی کونسل میں شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی شامل تھے۔ خود مودی جی کی پہلی حکومت میں ایم جے اکبر اور مختار عباس نقوی مرکز میں وزیر رہے ہیں لیکن جب سے مختار عباس نقوی کی راجیہ سبھا کی رکنیت ختم ہوئی ہے، اس کے بعد سے کسی مسلمان نے وزارتی عہدہ کا حلف نہیں اٹھایا۔ اس مرتبہ اس لئے امید تھی کیونکہ بی جے پی کے پاس مکمل اکثریت نہیں ہے اور بی جے پی کو ان اتحادیوں پر زیادہ دارومدار کرنا پڑے گا جن کو مسلم ووٹوں کی ضرورت ہے پر ایسا نہیں ہوا۔
آزادی کے بعد بھی مسلمانوں کے خلاف بہت نفرت تھی اور یہ نفرت فطری بات تھی کیونکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے مسلمانوں کے نام پر علیحدہ ملک قائم کر لیا تھا۔ جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے تھے ان میں سے بہت کم کسی مجبوری کے تحت نئے مسلم ملک نہیں گئے تھے بلکہ زیادہ تر مسلمانوں کو ہندوستان سے اور ہندوستان کی سیکولر اقدار سے لگاؤ تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے ہندوستان میں رکنے اور رہنے کو ترجیح دی تھی۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں قائم ہونے والی حکومت نے بھی اس بات کا خیال رکھا اور مولانا آزاد کو ملک کا پہلا وزیر تعلیم بنایا تھا۔
صرف مرکز میں ہی مسلمانوں کی نمائندگی نہیں تھی بلکہ اس ملک میں کئی مسلم شخصیات ایسی بھی رہیں ہیں جو اپنے وقت میں کسی نہ کسی ریاست کی وزیر اعلیٰ بھی بنیں اور یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں ایک ریاست کے علاوہ کسی میں بھی کبھی مسلمانوں کی اکثریت نہیں رہی۔ جموں و کشمیر جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں شیخ عبداللہ، فاروق عبداللہ، مفتی محمد سعید، غلام نبی آزاد، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی وغیرہ وزرائے اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ لیکن راجستھان میں برکت اللہ، آسام میں انورا تیمور، مہاراشٹر میں اے آر انتولے، بہار میں عبد الغفور، منی پور میں علیم الدین اور کیرالہ میں سی ایچ محمد کویا وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ اس ملک میں کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہوئی ہے یہاں شخصیت کی بنیاد پر وزیر اور وزیر اعلی بنائے جاتے رہے ہیں۔
این ڈی اے حکومت کو بھی اس جانب غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس ملک میں کئی وزرائے اعلی مسلمان رہے ہوں ان میں ایسی کون سی پستی آ گئی کہ اب کوئی وزیر بننے کے لائق بھی نہیں رہا۔ ہمیں سب کے مسائل کو ذہن میں رکھنے کے لئے اور حل تلاش کرنے کے لئے ہر طبقہ کی نمائندگی ضروری ہوتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔