’کاٹھ کی ہانڈی‘ چولہے پر بار بار نہیں چڑھتی
سیاسی ماہرین تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آر ایس ایس، نریندر مودی اور بی جے پی کے طرز عمل سے خوش نہیں ہے اس کا اندازہ سنگھ کے چیف موہن بھاگوت کے ناگپور میں دیئے گئے حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے
لوک سبھا انتخابات 2024 کے نتائج سب کے سامنے ہیں جس کی بنیاد پر کسی طرح گرتے پڑتے آخرکار ایک بار پھر بی جے پی نے مرکزی اقتدار پر قبضہ حاصل کر لیا ہے لیکن اس کا دوسرا سب سے اہم پہلو جو آج کل موضوع بحث بنا ہوا ہے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اس کی مائی باپ راشٹریہ سوئم سیوک (آر ایس ایس) کے ساتھ ناراضگی ہے۔ سیاسی ماہرین تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آر ایس ایس ، نریندر مودی اور بی جے پی کے طرز عمل سے خوش نہیں ہے اس کا اندازہ سنگھ کے چیف موہن بھاگوت کے ناگپور میں دیئے گئے حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے انتخابات کے حوالے سے پارٹی اور نریندر مودی پر کئی طنز کئے ہیں۔
سر سنگھ چالک کی تقریر کا اختصار جو بڑا اشارہ دے رہا ہے اور تجزیہ کاروں نے ان کے معنی اور مفاہیم کو سمجھنے کے بعد کہنا شروع کر دیا ہے کہ اب بی جے پی اور نریندر مودی کی خیر نہیں! بھاگوت نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو خدمت کرتا ہے، جو حقیقی خادم ہے، جس کو حقیقی خادم کہا جا سکتا ہے، اس کی کوئی حد اور عزت ہوتی ہے یعنی وہ حد اور عزت و وقار کے ساتھ چلتا ہے۔ کام تو سبھی لوگ کرتے ہیں لیکن کام کرتے وقت اپنی حد پر عمل کرنا۔ اس حد کی تعمیل کر کے جو چلتا ہے، عمل کرتا ہے، بد اعمالیوں میں ملوث نہیں ہوتا، اس میں گھمنڈ نہیں آتا، وہی خادم کہلانے کا حق دار ہوتا ہے۔ بھاگوت کے ذریعہ عوامی طور پر دیئے گئے اس بیان کے بعد بھگوا بریگیڈ میں تنازعہ کھڑا ہو گیا۔
غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ موہن بھاگوت کا یہ بیان عام لوگوں کا خیال ہے جو گزشتہ 10 سالوں سے سب کے سامنے ہے مگر بھگوا بریگیڈ بشمول آر ایس ایس اس پر کسی بھی قیمت پر کان دھرنے کو تیار نہیں نظر آئے۔ یہاں تک کہ ملک و بیرون ملک سے بھی یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ اقتدار کے زعم میں نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی تاناشاہی کے ذریعہ اپوزیشن کے ساتھ ہی عام لوگوں کو بھی اپنے اشارے پر نچانا چاہتے ہیں۔ عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کرنے والی بیٹیوں سے لے کر نوجوانوں اور بزرگ کسانوں نے جب اپنا حق مانگنے کے لئے آواز اٹھائی تو انہیں لاٹھی ڈنڈوں سے خاموش کر دیا گیا یا انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھاگوت جی کو یہ بات کہنے میں اتنی دیر کیوں لگی؟ کیا نریندر مودی کی طرح بھاگوت نے بھی یہی سمجھ لیا تھا کہ نفرت اور انتہا پسندی کے ذریعہ وہ ہمیشہ راج کریں گے؟ اب جب کہ تصویر پوری طرح صاف ہو چکی ہے اور بی جے پی کے ساتھ آر ایس ایس کو بھی سمجھ آگیا ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں ہر شخص کی رائے کی اہمیت ہوتی ہے اس کا ثبوت حالیہ انتخابات کے نتائج ہیں جس کے لیے 400 پار کا نعرہ لگانے والے 250 کے اعداد و شمار کو بھی نہیں چھو پائے۔ ان کے مقابلے جو آئین کی حفاظت، محبت کو فروغ اور نفرت کا خاتمہ کرنے کے لیے سڑک پر اترے تھے انہیں عوام نے غیر متوقع کامیابی سے ہمکنار کیا۔
در اصل آر ایس ایس اور بی جے پی کی حالت ریگستان کے اس شتر مرغ کی طرح ہے جو طوفان کی طاقت کو نہ سمجھ کر اپنا منہ ریت کے اندر چھپا کر سب کچھ محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ آر ایس ایس یہی غلطی لوک سبھا انتخابات 2024 میں کر بیٹھا۔ کیرانہ اس کی بڑی مثال کہا جا سکتا ہے جہاں وہ نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں کی داستان فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کر کے الیکشن جیت لینا چاہتی تھا جیسا اس نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں کیا تھا۔ اس وقت یہی حکم سنگھ تھے جن کے گزر جانے کے بعد ضمنی الیکشن ہوا۔ اس وقت اس جاٹ علاقے میں نقل مکانی کی نئی کہانی چھیڑی گئی کہ مسلمانوں کے خوف سے ہندو اس علاقے سے اپنے گھروں پر تالا لگا کر بھاگ گئے ہیں۔
اس جھوٹے پروپیگنڈے کا انھیں فائدہ ملا اور وہ الیکشن جیت گئے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ کاٹھ کی ہانڈی چولہے پر بار بار نہیں چڑھتی۔ اس بار بھی آر ایس ایس اور بی جے پی نے یہی راگ الاپا جسے سن کر عوام طنزیہ مسکرا کر رہ گئے۔ آنجہانی حکم سنگھ نے جب یہ داستان چھیڑی تھی تو اسی وقت اس ملک کے کچھ غیر جانبدار ٹی وی چینلوں نے سچائی سامنے لانے کا کام کیا تھا۔ جن گھروں اور مواضعات کے مکین اپنے علاقے چھوڑ کر گئے تھے۔ انھوں نے خود کیمرے کے سامنے آ کر بتایا کہ نہ تو وہ کسی سے ڈر کر یہاں سے گئے ہیں اور نہ ہی کسی نے انھیں ستایا ہے۔ وہ لوگ اپنے کاروبار کو فروغ دینے یا اچھی ملازمتوں کے لیے دوسری جگہ گئے ہیں۔
تعجب ہے کہ آر ایس ایس ملکی اتحاد و اتفاق کی حکمت عملی ابھی تک نہیں سمجھ پایا۔ جن مسلمانوں سے سبرامنیم سوامی جیسے لوگ ووٹ دینے کا حق چھین لینا چاہتے تھے۔ ان کا ساتھ علاقہ کے دلتوں ، پس ماندہ اقوام اور جاٹوں نے دے کر یہ پیغام دے دیا کہ یہ ملک گاندھی کا ہے گوڈسے کا نہیں۔ اب بی جے پی اور آر ایس ایس کے تھنک ٹینک لاکھ اگر مگر کہیں لیکن اس بات کو جھٹلا نہیں سکتے کہ ان کی نفرتی سیاست کی دھار کند ہو چکی ہے۔ بی جے پی سے عوام سخت ناراض ہیں۔ عوام نے مندر-مسجد، منگل سوتر کے نام پر جذبات سے کھلواڑ کرنے والوں کو بتا دیا ہے کہ ہم حقیقی محبان وطن ہیں اور نام نہاد راشٹر بھگتوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
بھگوا بریگیڈ کو اتحاد کی طاقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر انھوں نے اب بھی کسانوں، نوجوانوں، دلتوں اور اقلیتوں کو اسی طرح نظر انداز کیا تو آئندہ انتخابات میں فتح کا منظر نامہ ان کے حق میں لکھا جانا تو دور کی بات رہی، انھیں اپنا وقار بچانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ ان حالات میں اب سوال یوگی آدتیہ ناتھ پر بھی اٹھنے لگے ہیں۔ اس میں ان کی پارٹی کے لوگ ہی پیش پیش ہیں۔ جس غالب اکثریت سے بی جے پی یوپی میں اقتدار میں آئی تھی اب اس کا اثر زائل ہو گیا ہے۔ حالات گواہی دے رہے ہیں کہ اگر راہل گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن ’انڈیا اتحاد‘ اسی طرح متحدہ رہا تو آئندہ ضمنی انتخابات ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے گھمنڈی سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔