اگر امریکہ نہ بدلا تو اس کو کوئی نہیں بچا سکتا
ڈونالڈ ٹرمپ کی بطور 47ویں صدر کامیابی نے امریکی عوام کی قوم پرستی اور صنفی سوچ پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔ مبصرین کے مطابق، امریکہ کو صنفی تفریق اور قوم پرستی پر قابو پانے کی ضرورت ہے
ڈونالڈ ٹرمپ آئندہ سال امریکہ کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف لیں گے۔ ان کی کامیابی کے چرچے امریکہ اور دنیا بھر میں کافی عرصے تک گونجتے رہیں گے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نہ صرف صدارتی انتخاب ہارنے کے بعد دوبارہ کامیاب ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے جس انداز میں اکثریت حاصل کی، اس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ڈیموکریٹس کی امیدوار کملا ہیرس کی بڑی شکست نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ مبصرین نے اس پر مختلف آراء دی ہیں، جن میں سے اکثر دو اہم نکات پر مرکوز ہیں، ایک یہ کہ ٹرمپ کو کن ووٹوں نے اتنی بڑی اکثریت سے کامیاب کیا اور دوسرا یہ کہ کیا امریکہ واقعی تبدیلی کی راہ پر گامزن ہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹرمپ دونوں مرتبہ امریکی خاتون امیدوار کو شکست دے کر صدر بنے ہیں۔ 2016 میں انہوں نے ہلیری کلنٹن کو شکست دی تھی اور اب 2024 میں کملا ہیرس کو ہرا کر دوبارہ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ امریکہ میں ابھی تک کوئی خاتون صدر منتخب نہیں ہو سکی، جو امریکی عوام کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکہ چاہے خود کو کتنا بھی ترقی پسند ملک کہے، مگر وہاں کی حکومت کی باگڈور کسی خاتون کے ہاتھ میں نہ ہونا ایک نمایاں حقیقت ہے۔ اس کے برعکس، برصغیر جیسے ترقی پذیر ممالک یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں خواتین نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی ہے۔ ہندوستان میں اندرا گاندھی، پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ اور خالدہ ضیاء جیسی خواتین رہنما حکمرانی کر چکی ہیں۔ امریکہ میں خاتون صدر کا منتخب نہ ہونا وہاں کی عوام کی سوچ پر سوالیہ نشان ضرور کھڑا کرتا ہے۔
خاتون صدر کا منتخب نہ ہونا امریکی عوام کی ذہنیت ظاہر کرتا ہے اور وہاں کی قوم پرستی یعنی ’گورے اور امریکی پہلے‘ کی پالیسی پر بھی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ میں دنیا بھر کے لوگ رہتے ہیں اور براک اوباما جیسی شخصیت بھی ملک کے اعلیٰ ترین سیاسی منصب تک پہنچ چکی ہے، پھر بھی اگر ’گورے اور امریکی پہلے‘ جیسے نظریے کی حمایت پائی جاتی ہے تو اس پر سوال کھڑے ہونا لازمی ہے۔ ان انتخابات کے نتائج میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی شرکت اور قوم پرستی کے نظریے کی عکاسی نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
مہنگائی، تارکین وطن سے متعلق قوانین اور اقتصادی حالات نے جہاں ووٹروں پر اثر ڈالا، وہیں ڈیموکریٹس کی شکست میں سب سے اہم کردار فلسطین پر اسرائیلی حملے نے ادا کیا۔ اس صورتِ حال کو ٹرمپ کی کامیابی کہنا کم اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی کامیابی کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اگر کسی ملک کی پالیسی سازی میں کسی مخصوص طبقے کے لوگوں کی رائے اور پیسے کا انحصار زیادہ ہو جائے تو یہ اس ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ڈیموکریٹس کو ان انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فلسطین کے حامی ووٹروں کو امید تھی کہ ڈیموکریٹس ان کے حق میں آواز اٹھائیں گے لیکن اسرائیلی حامی یہودیوں کے مالی اثرات کے باعث ڈیموکریٹس نے خاموشی اختیار کی، جس کا جواب عوام نے انتخابی نتائج کے ذریعے دیا۔
امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی کی بہت سی وجوہات بتائی جا رہی ہیں لیکن خاتون صدر کا منتخب نہ ہونا، قوم پرستی میں اضافہ اور کسی ایک طبقے کے پیسے کا سیاست پر نمایاں اثر ہونے کو بھی بڑی وجوہات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ مبصرین نے سوال اٹھایا ہے کہ ان انتخابات سے امریکہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں! حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو تبدیلی کی ضرورت ہے۔ امریکہ کو ضرورت ہے کہ وہ صنفی تفریق کو ختم کرے، قوم پرستی کے عروج کو روکے اور کسی ایک طبقے کے پیسے پر انحصار کو محدود کرے۔ پوری دنیا کی نظریں امریکہ پر ہوتی ہیں، اگر امریکہ میں یہ تبدیلیاں نہ آئیں تو اس ملک کی ترقی اور اے آئی جیسے اختراعات بھی اسے مستقبل میں پیش آنے والے مسائل سے بچا نہیں سکیں گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔