2023 کو میں امید کی نظر سے دیکھتی ہوں، کیونکہ... (مردُلا گرگ کا مضمون)

آج ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا ہے جس نے میرے اندر جوش بھر دیا کہ کچھ تو بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

میں سمجھتی ہوں کہ 2022 ہندوستان کے لیے 2019 اور 2020 سے بھی زیادہ خوفناک تھا۔ جانتی ہوں کہ تب ملک میں کووڈ پھیلا تھا اور لاک ڈاؤن کے سبب ہزاروں مہاجر مزدور اسی طرح ہلاکت خیزی کے شکار ہوئے تھے جیسے 1943 میں بنگال کے قحط میں۔ دونوں بار قصور سرکاری پالیسی کا تھا جو تب اناج مہیا نہ کروا پائی اور اب بے روزگار ہوئے لوگوں کے لیے بہتر منصوبہ نہ بنا پائی۔

ہندوستان کا معاشی نظام بدحال ہو گیا، تو سوچا حکومت سمجھ گئی ہوگی کہ مزدور لوگوں کو بچائے رکھے بغیر ترقی ناممکن تھی۔ اس لیے اب عوام کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی پالیسی تیار کرے گی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ روز مرہ کی ضرورتوں کی قیمتیں جس تیزی سے بڑھیں، اسی تیزی سے بے روزگاری۔ سماج کے کارپوریٹ طبقے نے خوب ترقی کی، بے شمار دولت کمائی، لیکن باقی لوگ کنگال ہوتے گئے۔ زراعت کو کارپوریٹ ورلڈ کو سونپنے کے خلاف زبردست کسان تحریک ہوئی۔ جنھیں ہم تب تک اَن داتا کہتے رہے تھے، اب دہشت گرد کہنے لگے کیونکہ وہ سڑک پر اتر آئے تھے۔ حالات کی نزاکت دیکھ کر حکومت نے زراعت کو کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں سونپنے کے لیے بنائے قانون واپس لے لیے۔ لیکن زراعت کا بنیادی مسئلہ فصل کو محفوظ رکھنے کے لیے گودام مہیا کرانے کی کوشش نہ کی۔ نتیجتاً کسان جب کپاس یا دیگر کیش کراپ اُگاتا جس کے لیے بازار اس پر دباؤ ڈالتا اور بینک قرض دیتے، تو اسے محفوظ رکھنے میں ناقابل، کم قیمت پر فوراً بیچنے پر مجبور ہوتا۔ قرض واپس نہ کر پانے کے سبب جب زمین ضبط ہونے کی نوبت آتی تو بہت بار خودکشی پر مجبور ہو جاتا۔


بہت کچھ اور بھی تباہ ہونے لگا۔ جمہوریت کے ریگولیٹر سہارے بے حس یا بے اثر ہوتے چلے گئے۔ شہریوں کے اندر اقتدار کے لیے خوف پیدا کر کے کام ثابت کرنا شروع ہوا۔ سب کو معلوم ہے کہ مذاہب اور ذاتوں کے درمیان خیرسگالی کی جگہ بیر پیدا کرنے سے شہری خود بخود اقتدار کے اشاروں پر ناچنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے۔ نازی جرمنی میں پہلے یہودیوں کے لیے نفرت پیدا کی گئی، پھر جپسیوں، ہم جنس پرستوں کے تئیں، پھر فنکاروں، اداکاروں، مصنفین کے تئیں۔ کیا وہی سب گزشتہ سال ہمارے ملک میں نہیں ہوا؟ بس یہودیوں کی جگہ مسلمانوں اور نچلی ذاتوں نے لے لی۔ پھر دانشور اور مصنف وغیرہ اس کی زد میں آ گئے۔ یعنی جو اپنے لیے خود سوچنے کی گستاخی کرے، غدارِ وطن قرار ہو جائے۔

پھر سال گزرتے گزرتے ایک انہونی واقعہ ہوا۔ اپوزیشن کا ایک شخص توڑنے کی سازش کو پس پشت ڈالتے ہوئے جوڑنے کی کوشش میں ملک کی پدیاترا پر چل پڑا۔ لوگ جڑتے گئے۔ کارواں بنتا گیا۔ ایسے معاملے پہلے بھی کئی بار پیش آئے تھے اور بیشتر ناکام رہے تھے۔ لیکن... کون کہہ سکتا ہے اس بار بھی ناکام ہوگا۔ گھڑا بھر جاتا ہے تو ایک کنچا مارنے سے ٹوٹ کر پانی پانی ہو جاتا ہے۔ تو اسی لیے 2023 کو میں اسی امید کی نظر سے دیکھتی ہوں۔ آج ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا ہے جس نے میرے اندر جوش بھر دیا کہ کچھ تو بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری۔


میرے گھر کام کرنے مستری آیا۔ بمشکل چائے ناشتہ لیا۔ کھانے کو بہت کہا، نہیں مانا کہ کام شام تک ختم کرنا ہے۔ اگر کھانے بیٹھ گئے تو ہو نہیں پائے گا۔ بہت کہا، باقی کل ہو جائے گا، نہیں مانا۔ کام یقیناً وقت سے پہلے ختم ہو گیا۔ 750 روپے دِہاڑی طے ہوئی تھی۔ اتنا اچھا کام اور بالکل وقت پر۔ میں نے 800 پکڑائے تو بولا ’’پیسے زیادہ دے دیئے آپ نے۔‘‘ میں نے کہا ’’نہیں، 800 ہی تو ہیں۔ بہت اچھے سے کام کیا تم نے۔‘‘ وہ کہنے لگا ’’تو کیا خراب کرتے۔ ایسے ویسے مستری نہیں ہیں ہم۔ اب بھی کمی لگے تو فون کر دینا۔ کل آ کر ٹچ کر دیں گے۔‘‘ پھر میں نے کہا ’’ضرور، لیکن پلیز بھائی میرے، انھیں آشیرواد سمجھ کر رکھ لو۔‘‘ لمحہ بھر اس نے مجھے بغور دیکھا، پھر 50 روپے الگ کر ماتھے سے چھو کر رکھ لیے۔ واقعی کچھ تو ہے کہ ہستی مٹے گی نہیں ہماری اگلے برس بھی۔

(مضمون نگار مردُلا گرگ مشہور و معروف ادیب ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔