ایسے حکمراں کو میں ’لیڈر‘ نہیں کہہ سکتی... حمرا قریشی

میں یہ جاننے کے لیے بے چین اور متجسس ہوں کہ فلسطین و لبنان کی حالت دیکھ کر بھی سیاسی حکمراں کس طرح اچھی نیند لے سکتے ہیں، وہ اس قتل عام کو دیکھ کر بھی پریشان کیوں نہیں ہوتے!

فائر بندی کوششیں، بلنکن کا غزہ کی جنگ کے دوران خطے کا چھٹا دورہ
فائر بندی کوششیں، بلنکن کا غزہ کی جنگ کے دوران خطے کا چھٹا دورہ
user

حمرا قریشی

یہ خبر پریشان کرنے والی ہے کہ فلسطین میں جاری جنگ کی تباہی دن بہ دن مزید بڑھ رہی ہے۔ یہ جنگ فلسطینی ریاست سے آگے بڑھ کر لبنان تک پہنچ گئی ہے۔ یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ جنگ اپنے ساتھ جو تباہی اور اموات لاتی ہے، اسے روکا نہیں جا سکتا۔ یہ آنے والی نسلوں کے لیے برے نشانات چھوڑ جاتی ہے۔ اس پر رونے والا بھی کوئی نہیں۔ نام نہاد سپر پاور امریکہ اور اس کے اتحادی اس جنگ کو روکنے کے لیے مداخلت کیوں نہیں کر رہے! انھیں اس تباہی کو روکنا چاہیے۔ انھیں چاہیے کہ وہ غزہ اور اس کے ارد گرد یا لبنان کی سرحدوں پر اجلاس منعقد کریں، اس کی میزبانی کریں، تاکہ وہ نسل کشی اور موت کی تباہی کا براہ راست مشاہدہ کر سکیں۔ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ کس طرح زندہ بچے ہوئے لوگ مجبور و بے سہارا ہیں۔ وہ بغیر خوراک، پانی، رہائش اور طبی امداد کے پریشان حال ہیں۔ انھیں دیکھنے والا کوئی رشتہ دار بھی نہیں، کیونکہ سینکڑوں یتیم اور بے گھر ہیں۔

میں یہ جاننے کے لیے بے چین اور متجسس ہوں کہ آخر ایسے وقت میں سیاسی حکمراں کس طرح اچھی نیند لے سکتے ہیں، وہ اس قتل عام کو دیکھ کر بھی پریشان کیوں نہیں ہوتے! ایسے حکمراں کو میں ’لیڈر‘ نہیں کہہ سکتی، کیونکہ وہ ہمیں کسی بھی طرح بقا کے قریب نہیں لے جا رہے۔ وہ سبھی سیاسی حکمراں ہیں! انتہائی درجہ کے سیاستداں، جو اپنے بہترین لباس میں ایک اجلاس سے دوسرے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، ان میں مصنوعی تام جھام دکھائی دیتی ہے اور ان کی کھوکھلی تقریریں ایسی ہوتی ہیں جس میں وقفہ موجود ہوتا ہے۔


وہ ایسے سیاستداں ہیں جو زمینی حقائق سے روبرو ہونے کے لیے کسی بھی جنگ زدہ ملک کا دورہ کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ سینکڑوں اور ہزاروں لوگ صرف اس لیے برباد ہو گئے کیونکہ ان کی زندگیوں میں مسلسل فوجی مداخلت ہوئی۔ فلسطینی بچوں کی چیخ و پکار، زار و قطار روتی ہوئی مائیں، درد سے بیہوش باپ، اپنے جذباتی اشتعال پر قابو رکھنے سے قاصر نوعمر بچوں کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر بھی اس وقت کے سیاسی حکمران پریشان نہیں ہوتے۔ دراصل وہ اپنے آرام دہ علاقوں میں بیٹھے ہوتے ہیں یا پھر انھیں ’ہاتھی کے دانت‘ سمجھا جائے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا انھیں ذرا بھی احساس نہیں کہ ان کی توسیع پسند پالیسیاں بے رحم فوجی طاقت کی بنیاد پر پھیل رہی ہیں!

یہ کالم میں 2 اکتوبر، یعنی مہاتما گاندھی کے یومِ پیدائش کے قریب لکھ رہی ہوں، اور یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا ہوتا اگر مہاتما گاندھی ہمارے درمیان ہوتے! یقیناً وہ فلسطین اور لبنان گئے ہوتے اور زندہ بچ جانے والوں سے ملاقات کرتے۔ وہاں متاثرہ افراد کے درمیان امید اور امداد کے ساتھ ہفتوں یا مہینوں گزارتے، انسانی مصائب و پریشانیوں کو ختم کرنے کے لیے حل تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتے۔ آپ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جب بھی ہمارے ملک کے کسی علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد یا فساد ہوتا تو مہاتما گاندھی اس متاثرہ مقام کا دورہ کرتے تھے، ’پد یاترا‘ کرتے اور کیمپ لگاتے تھے۔ وہ یہ یقینی بناتے تھے کہ امن اور سمجھداری والا ماحول برقرار رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔