یوم پیدائش پر خاص: جامع مسجد دہلی سے 1947 میں کی گئی مولانا ابوالکلام آزاد کی تاریخی تقریر
“میں تمہارے زخموں کو کریدنا نہیں چاہتا اور تمہارے اضطراب میں مزید اِضافہ میری خواہش نہیں لیکن اگر کچھ دُور ماضی کی طرف پلٹ جاؤ تو تمہارے لئے بہت سی گرہیں کھُل سکتی ہیں۔”
1947 میں پاکستان بننے کے بعد مجاہد آزادی اور عظیم مفکر مولانا ابوالکلام آزاد نے دہلی کی جامع مسجد سے جو تاریخی تقریر کی اور ہندوستان کی تقسیم سے پیدا ہونے والے حالات پر جس دوراندیشی کے ساتھ تبصرہ کیا، وہ سننے پر آج بھی اتنا ہی رقت انگیز معلوم ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ انھوں نے جو بھی پیشین گوئی کی تھی وہ آج سچ ثابت ہوتی نظر آ رہی ہے۔ آئیے یہاں پڑھتے ہیں ان کی تقریر کا متن جو کسی بھی شخص کو اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے...
’’عزیزانِ گرامی۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی زنجیر ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لئے شاہ جہاں کی اس یاد گار مسجد میں یہ اجتماع نیا نہیں۔ میں نے اِس زمانہ میں بھی، کہ اِس پر لیل و نہار کی بہت سی گردِشیں بیت چکی تھیں، تمہیں خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا اور تمہارے دِلوں میں شک کی بجائے اعتماد۔ آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دِلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند سالوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اُٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دئیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دئیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتیّٰ کہ پچھلے سات سال کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغِ جدائی دے گئی ہے اُس کے عہدِ شباب میں بھی میں نے تمہیں ہر خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ منع و اِنکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج اُنہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صِراطِ مستقیم سے دور لے گیا تھا۔‘‘
سچ پوچھو تو اب میں ایک جمود ہوں یا ایک دُور افتادہ صدا جس نے وطن میں رہ کر بھی غریب الوطنی کی زندگی گزاری ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مقام میں نے پہلے دِن اپنے لئے چُن لیا تھا، وہاں میرے بال و پر کاٹ لئے گئے ہیں یا میرے آشیانے کے لئے جگہ نہیں رہی بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے دامن کو تمہاری دست درازیوں سے گِلہ ہے۔ میرا احساس زخمی ہے اور میرے دِل کو صدمہ ہے۔ سوچو تو سہی تم نے کون سی راہ اختیار کی۔ کہاں پہنچے اور اب کہاں کھڑے ہو؟کیا یہ خوف کی زندگی نہیں اور کیا تمہارے حواس میں اختلال نہیں آگیا۔ یہ خوف تم نے خود فراہم کیا ہے۔
ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ دو قوموں کا نظریہ حیاتِ معنوی کے لئے مرض الموت کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس کو چھوڑو۔ یہ ستون جن پر تم نے بھروسہ کیا ہوا ہے نہایت تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں لیکن تم نے سُنی ان سُنی برابر کر دی اور یہ نہ سوچا کہ وقت اور اُس کی رفتار تمہارے لئے اپنا ضابطہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ وقت کی رَفتار تھمی نہیں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ جن سہاروں پر تمہارا بھروسہ تھا وہ تمہیں لا وارِث سمجھ کر تقدیر کے حوالے کر گئے ہیں،وہ تقدیر جو تمہاری دماغی لغت میں مشیت کی منشا سے مختلف مفہوم رکھتی ہے۔ یعنی تمہارے نزدیک فقدانِ ہمّت کا نام تقدیر ہے۔
انگریز کی بساط تمہاری خواہش کے بر خلاف اُلٹ دی گئی اور راہ نمائی کے وہ بت جو تم نے وضع کئے تھے، وہ بھی دغا دے گئے حالانکہ تم نے سمجھا تھا کہ یہ بساط ہمیشہ کے لئے بچھائی ہے اور اُن ہی بتوں کی پوجا میں تمہاری زندگی ہے۔ میں تمہارے زخموں کو کریدنا نہیں چاہتا اور تمہارے اضطراب میں مزید اِضافہ میری خواہش نہیں لیکن اگر کچھ دُور ماضی کی طرف پلٹ جاؤ تو تمہارے لئے بہت سی گرہیں کھُل سکتی ہیں۔ ایک وقت تھا، میں نے ہندوستان کی آزادی کے حصول کا احساس دِلاتے ہوئے تمہیں پکارا تھا اور کہا تھا:
’’جو ہونے والا ہے اُس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے روک نہیں سکتی۔ ہندوستان کی تقدیر میں بھی سیاسی انقلاب لکھا جا چکا ہے اور اِس کی غلامانہ زنجیریں بیسویں صدی کی ہوائے حُرِّیت سے کٹ کر گِرنے والی ہیں۔ اگر تم نے وقت کے پہلو بہ پہلو قدم اُٹھانے سے پہلو تہی کی اور تعطل کی موجودہ زندگی کو اپنا شعار بنائے رکھا تو مستقبل کا مورِّخ لکھے گا کہ:
’’تمہارے گروہ نے جو سات کروڑ انسانوں کا ایک غول تھا،ملک کی آزادی کے بارے میں وہ روَیّہ اختیار کیا جو صفحۂ ہستی سے محو ہو جانے والی قوموں کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ آج ہندوستان آزاد ہے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ وہ سامنے لال قلعہ کی دیوار پر آزاد ہندوستان کا جھنڈا اپنے پورے شکوہ سے لہرا رہا ہے۔ یہ وہی جھنڈا ہے جس کی اُڑانوں سے حاکمانہ غرور کے دِل آزار قہقہے تمسخر کیا کرتے تھے۔‘‘
یہ ٹھیک ہے کہ وقت نے تمہاری خواہشوں کے مطابق انگڑائی نہیں لی، بلکہ اُس نے ایک قوم کے پیدائشی حق کے احترام میں کروٹ بدلی ہے اور یہی وہ انقلاب ہے جس کی ایک کروٹ نے تمہیں بہت حد تک خوف زدہ کر دیا ہے۔ تم خیال کرتے ہو کہ تم سے کوئی اچھی شے چھن گئی اور اُس کی جگہ بُری شے آ گئی۔ یہ واقعہ نہیں واہمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بُری شے چلی گئی اور اچھی شے آ گئی۔ ہاں تمہاری بے قراری اِس لئے ہے کہ تم نے اپنے تئیں اچھی شے کے لئے تیار نہیں کیا تھا اور بُری شے کو ہی نجاتِ مادِّی سمجھ رکھا تھا۔ میری مراد غیر ملکی غلامی سے ہے، جس کے ہاتھ میں تم نے مدّتوں حاکمانہ طمع کا کھلونا بن کر زندگی بسر کی ہے۔ ایک دِن تھا جب تم کسی جنگ کے آغاز کی فکر میں تھے اور آج اِس جنگ کے انجام سے مضطرِب ہو۔ آخر تمہاری اِس عجلت پر کیا کہوں کہ اِدھر ابھی سفر کی جستجو ختم نہیں ہوئی اور اِدھر گمراہی کا خطرہ درپیش آگیا ہے۔
میرے بھائی میں نے ہمیشہ سیاسیات کو ذاتیات سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے اور کبھی اِس پُر خار وادی میں قدم نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ میری بہت سی باتیں کنایوں کا پہلو لئے ہوتی ہیں لیکن مجھے آج جو کہنا ہے میں اُسے بے روک ہو کر کہنا چاہتا ہوں۔ متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ بنیادی طور پر غلط تھا۔ مذہبی اختلافات کو جس ڈھب سے ہوا دی گئی اُس کا لازمی نتیجہ یہی آثار و مظاہر تھے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور بدقسمتی سے بعض مقامات پر ابھی تک دیکھ رہے ہیں۔
پچھلے سات برس کی روداد دہرانے سے کوئی خاص فائدہ نہیں اور نہ اِس سے کوئی اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ البتہ ہندوستان کے مسلمانوں پر مصیبتوں کو جو ریلا آیا ہے۔ وہ یقیناً مُسلم لیگ کی غلط قیادت کی فاش غلطیوں کا بدیہی نتیجہ ہے۔ یہ سب کچھ مُسلم لیگ کے لئے جو موجبِ حیرت ہو سکتا ہے لیکن میرے لئے اِس میں کوئی نئی بات نہیں۔ میں پہلے دِن ہی سے اِن نتائج پر نظر رکھتا تھا۔
اب ہندوستان کی سیاست کا رُخ بدل چکا ہے۔ مُسلم لیگ کے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب یہ ہمارے اپنے دماغوں پر منحصر ہے کہ ہم کسی اچھے اندازِ فکر میں سوچ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ اِس خیال سے میں نے نومبر کے دوسرے ہفتہ میں ہندوستان کے مُسلمان رہنماؤں کو دہلی بلانے کا قصد کیا ہے۔ دعوت نامے بھیج دئیے گئے ہیں۔ ہراس کا یہ موسم عارضی ہے۔ میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم کو ہمارے سِوا کوئی زیر نہیں کر سکتا۔
میں نے ہمیشہ کہا اور آج پھر کہتا ہوں کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دو۔ شک سے ہاتھ اُٹھا لو اور بے عملی کو ترک کر دو۔ یہ تین دھار کا انوکھا خنجر لوہے کی اِس دودھاری تلوار سے زیادہ کاری ہے جس کے گھاؤ کی کہانیاں میں نے تمہارے نوجوانوں کی زبانی سنی ہیں۔
یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدّس نام پر اختیار کی ہے، اُس پر غور کرو۔ تمہیں محسوس ہو گا کہ یہ غلط ہے۔ اپنے دِلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟
یہ دیکھو۔۔۔ مسجد کے مینار تم سے جھُک کر سوال کرتے ہیں تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گُم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون کی سینچی ہوئی ہے۔
عزیزو ! اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو۔ جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بیجا تھا۔ اُسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بیجا ہے۔ مسلمان اور بُزدِلی اور یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ سچے مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہِلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے۔ چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہو جانے سے ڈرو نہیں۔ اُنہوں نے تمہیں جانے کے لئے ہی اکٹھا کیا تھا۔ آج اُنہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو یہ تعجب کی بات نہیں۔ یہ دیکھو کہ تمہارے دِل تو اُن کے ساتھ ہی رخصت نہیں ہو گئے۔ اگر دِل ابھی تک تمہارے پاس ہیں تو اُن کو اپنے اُس خدا کی جلوہ گاہ بناؤ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے عرب کے ایک اُمّی کی معرفت فرمایا تھا۔۔۔
’’جو خدا پر ایمان لائے اور اُس پر جم گئے تو اُن کے لئے نہ تو کسی طرح کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم‘‘، ہوائیں گُزر جاتی ہیں۔ یہ صرصر صحیح لیکن اِس کی عمر کچھ زیادہ نہیں۔ ابھی دیکھتی آنکھوں ابتلا کا یہ موسم گزرنے والا ہے۔ یوں بدل جاؤ جیسے تم پہلے کبھی اِس حالت میں نہ تھے۔‘‘
میں کلام میں تکرار کا عادی نہیں لیکن مجھے تمہاری تغافل کشی کے پیشِ نظر بار بار کہنا پڑتا ہے کہ تیسری طاقت اپنے گھمنڈ کا پشتارہ اُٹھا کر رخصت ہو چکی ہے۔ جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا ہے۔ سیاسی ذہنیت اپنا پچھلا سانچہ توڑ چکی اور اب نیا سانچہ ڈھل رہا ہے اگر اب بھی تمہارے دِلوں کا معاملہ بدلا نہیں اور دماغوں کی چبھن ختم نہیں ہوئی تو پھر حالت دوسری ہے۔ لیکن اگر واقعی تمہارے اندر سچی تبدیلی کی خواہش پیدا ہو گئی ہے تو پھر اِس طرح بدلو جس طرح تاریخ نے اپنے تئیں بدل لیا ہے۔
آج بھی کہ ہم ایک دورِ انقلاب کو پورا کر چکے ہیں۔ ہمارے ملک کی ترقی میں کچھ صفحے خالی ہیں اور اِنہی صفحوں میں ہم زیبِ عنوان بن سکتے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم اِس کے لئے تیار بھی ہیں۔
عزیزو ! تبدیلیوں کے ساتھ چلو۔ یہ نہ کہو کہ ہم اِس تغیر کے لئے تیار نہ تھے۔ بلکہ اب تیار ہو جاؤ۔ ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے۔ اُس سے کرنیں مانگ لو اور اُن اندھیری راہوں میں بچھا دو جہاں اُجالے کی سخت ضرورت ہے۔
میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم حاکمانہ اقتدار کے مدرسے سے وفاداری کا سرٹیفِکیٹ حاصل کرو اور کاسہ لیسی کی وہی زندگی اختیار کرو جو غیر ملکی حاکموں کے عہد میں تمہارا شعار رہا ہے۔ میں کہتا ہوں جو اُجلے نقش و نگار تمہیں اِس ہندوستان میں ماضی کی یاد گار کے طور پر نظر آرہے ہیں وہ تمہارا ہی قافلہ لایا تھا۔ اُنہیں بھُلاؤ نہیں۔ اُنہیں چھوڑ و نہیں۔ اُن کے وارِث بن کر رہو اور سمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لئے تیار نہیں تو پھر تمہیں کوئی طاقت نہیں بھگا سکتی۔
آؤ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اِسی کے لئے ہیں اور اِس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔
آج زلزلوں سے ڈرتے ہو۔کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے۔ آج اندھیرے سے کانپتے ہو۔ کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود ایک اُجالا تھا۔ یہ بادلوں کے پانی کی سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائینچے چڑھا لئے ہیں۔ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اُتر گئے۔ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو اُن پر مسکرائے۔ بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا۔ صرصر اُٹھی تو رُخ پھیر دیا۔ آندھیاں آئیں تو اُن سے کہا۔ تمہارا راستہ یہ نہیں ہے۔ یہ ایمان کی جانکنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اِس درجہ غافل ہو گئے ہیں کہ جیسے اُس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔
’’عزیزو ! میرے پاس تمہارے لئے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے۔ چودہ سو برس پہلے کا نسخہ ہے۔وہ نسخہ جس کو کائناتِ انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا۔ وہی نسخہ تمہاری حیات کا ضامن اور تمہارے وجود کا رکھوالا ہے۔ اُسی کا اتباع تمہاری کامرانی کی دلیل ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Nov 2019, 11:30 AM