’ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں!‘

بھاگوت کا یہ دعویٰ کہ سنگھ قیادت نے ہمیشہ تشدد کی مخالفت کی ہے، ایک پرفریب بیان کے سوا کچھ نہیں اور سنگھ کارکنان کے عمل اور سنگھ کی طرف سے انہیں دی جانے والی ٹریننگ اس دعوے کی نفی کرنے کے لیے کافی ہیں

<div class="paragraphs"><p>موہن بھاگوت، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

موہن بھاگوت، تصویر آئی اے این ایس

user

سراج نقوی

آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’سنگھ کے لیڈروں نے ہمیشہ ہی تشدد کی مخالفت کی ہے۔‘‘ آر ایس ایس کے آنجہانی لیڈر لکشمن راؤ انعامدار کی سوانح کے مراٹھی ترجمے کے رسم اجراء کے موقع پر بولتے ہوئے بھاگوت نے عیسائیوں اورمسلمانوں کے سنگھ کے تعلق سے پائے جانے والے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’’ہندوؤں کو منظّم کرنا مسلمانوں اور عیسائیوں کی مخالفت نہیں ہے۔‘‘ حالانکہ گجرات فسادات کے موقع پر پیش کی گئی اس تھیوری کو بھی انھوں نے دوہرایا کہ ’’کبھی کبھی کسی عمل پر رد عمل ہوتا ہے! کبھی کبھی جیسے کو تیسا جیسا رد عمل بھی ہوتا ہے لیکن صحیح معنوں میں امن اور رواداری ہندوتو کی اقدار ہیں۔“

جہاں تک بھاگوت کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ سنگھ قیادت نے ہمیشہ تشدد کی مخالفت کی ہے، تو یہ ایک پرفریب بیان کے سوا کچھ نہیں۔ اوّل تو سنگھ کی قیادت نے ایسا کیا نہیں، اور اگر چند مواقع پر ایسا کیا بھی تو سنگھ کارکنان کے عمل اور سنگھ کی طرف سے انھیں دی جانے والی ٹریننگ اس دعوے کی نفی کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ سنگھ کی شاکھاؤں میں کارکنان کو لاٹھی اور دیگر ہتھیار چلانے کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ بات صرف ہتھیاروں کی ٹریننگ کی ہی نہیں بلکہ سنگھ کی شاکھاؤں میں عیسائیوں اور مسلمانوں سے منافرت کا جذبہ بھی کارکنان میں پیدا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سابق سویئم سیوک کی مثال دینا کافی ہوگا۔سنگھ سے وابستہ رہے بھیلواڑہ، راجستھان کے دلت بھنور میگھ ونشی نے اس بنا پر سنگھ سے اپنا تعلق منقطع کر لیا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت میں حصہ لینے گئے کچھ کارکنان کے لیے جب ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا تو میگھ ونشی نے چاہا کہ اپنے گھر میں سنگھ کے سینئر لیڈروں کی دعوت کریں لیکن ان لیڈروں نے بہانے سے کھانا پیک کرا لیا، جسے بعد میں ضائع کر دیا گیا۔ بھنور میگھ ونشی کو اس واقعے نے سنگھ سے اتنا بددل کیا کہ انھوں نے اس تنظیم سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن انھوں نے خود ایک مضمون میں یہ تسلیم کیا کہ ’’سنگھ سے علیحدگی اور ہندو مذہب سے بیزاری کے سبب انھوں نے مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں تو سوچا لیکن آر ایس ایس کی ٹریننگ کے نتیجے میں ان کے دل میں تب بھی اسلام اور مسلمانوں کے لیے نفرت اور دشمنی کے احساسات زندہ تھے۔“ لیکن بھاگوت فرماتے ہیں کہ ہندوؤں کو منظم کرنا مسلمانوں اور عیسائیوں کی مخالفت نہیں ہے۔ اگر بھاگوت کی اس بات کو درست مانا جائے تو سوال یہ ہے کہ پھر سنگھ کے نظریات پر چلنے والی بی جے پی کے دور اقتدار میں ہی مسلمانوں پر مظالم اور تشدد کا سلسلہ دراز کیوں ہوا؟


اس کا سبب دراصل سنگھ کی وہ ٹریننگ ہی ہے کہ جو سنگھ کی شاکھاؤں میں دی جاتی ہے اور جس کی بنیاد مسلمانوں کے خلاف آمریت کی تلقین ہے۔ برسوں پہلے سنگھ کے سرسنگھ چالک ہیڈ گیوار کے قریبی ساتھی اور سنگھ کے قیام میں اہم رول ادا کرنے و اسے نظریاتی بنیاد فراہم کرنے والے ڈاکٹر مونجے نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ،”ہندوؤں کو منظّم کرنے کی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ ماضی کے شیوا جی یا مسولینی یا ہٹلر جیسا ہمارا ہندو ڈکٹیٹر نہ ہو۔“ ہٹلر اور مسولینی کے تعلق سے آج دنیا کا کیا نظریہ اور رائے ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں،لیکن ڈاکٹر مونجے کا مذکورہ موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ آر ایس ایس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر رکھی گئی،شائد اس کے پس پشت کسی طرح کا احساس کمتری کام کر رہا تھا۔آج سنگھ سے وابستہ افراد جس طرح کا ماحول مذہبی اقلیتوں کے خلاف پیدا کر رہے ہیں اس میں بھی یہ احساس صاف نظر آتا ہے اور یہی احسا س آمریت کا سبب بنتا ہے۔اس لیے بھاگوت کا یہ کہنا کہ ہندو اتحاد کی کوششوں کے پس پشت مسلم اور عیسائی مخالفت کا کوئی دخل نہیں ہے محض فریب ہے۔بھاگوت کہتے ہیں کہ کبھی کبھی عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ یہ بات کس تناظر میں کہی گئی یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔سب جانتے ہیں کہ گجرات میں مسلم کشی کے لیے اسی لاقانونیت پر مبنی دلیل کا سہارا لیا گیا تھا۔لیکن گجرات کے تعلق سے سنگھ کے پرانے کارکن اور برسوں بی جے پی میں رہے شنکر سنگھ واگھیلا کئی سال قبل اپنے ایک بیان میں گودھرا ٹرین میں کی گئی آتش زنی کو سنگھ اور اس وقت کی بی جے پی قیادت و حکومت کی منظم سازش قرار دے چکے ہیں۔ واگھیلا کے اس الزام پر کوئی صفائی بھی پیش نہیں کی گئی۔

گودھرا معاملے کو چھوڑ دیں تب بھی مرکز میں مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہجومی تشدد،مذہبی اقلیتوں کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنانے اور ان اقلیتوں سے متعلق دیگر موضوعات پر منافقانہ و جانبدارانہ رویّہ اپنانے کو کیا کہا جائے؟ کسی ایک مسلمان کو مختلف بہانوں سے قتل کرنے،عبادتگاہوں پر حملہ کرنے اور جبراً جے شری رام کے نعرے لگوانا آخر مسلمانوں یا عیسائیوں کے کون سے عمل کا رد عمل مانا جائے؟بھاگوت یہ بھی فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی جیسے کو تیسا جیسا رد عمل بھی ہوتا ہے،یہ بیان اپنے آپ میں لا قانونیت کی بالواسطہ حمایت کے مترادف ہے۔ملک بھر میں جس طرح بھگوا غنڈے مذہبی اقلیتوں کو مودی راج میں نشانہ بنا رہے ہیں،اور ان کے اس عمل کے باوجود جس طرح قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں یا پولیس ان مجرموں کو منافقانہ حمایت دے رہی ہیں وہ سنگھ کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔بھگوا عناصر نہ تو کسی عمل کے رد عمل میں اور نہ جیسے کو تیسا جواب دینے کے لیے قانون اپنے ہاتھ میں لیکر مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ یہ سنگھ کے ایجنڈے،پالیسی اور تربیت کا ہی نتیجہ ہے اور اس کے ثبوت خود سنگھ کے نظریات پر لکھی گئی کتابوں سے مل سکتے ہیں۔


یہاں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر منجے کا ذکر ضروری ہے۔منجے مسولینی سے اٹلی میں ملاقات کر چکے تھے۔ کچھ عرصے بعد 31 جنوری سن 1934 کو ہیڈگیوار کی صدارت میں ”فاشزم اور مسولینی“ کے موضوع پر ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں کلیدی خطبہ منجے نے ہی دیا۔اپنے خطبے میں منجے نے صاف طور پر کہا کہ،”مسلمان شرارت پسند ہو گئے ہیں،کانگریس ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے۔اس لیے ہمیں گاندھی اور مسلمان دونوں سے لڑنا ہوگا۔اس کے لیے آر ایس ایس کا استعمال آسان اور مفید ہو سکتا ہے۔چرخے(یعنی گاندھی جی)کا مقابلہ آخر کار رائفل سے ہی کرنا ہوگا۔“ یہ بیان بتاتا ہے کہ منجے صاف طور پر اس بات کے حامی تھے کہ گاندھی جی کو قتل کر دیا جائے،اور بالآخر ایسا ہوا بھی۔ گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کر دیا۔ان حالات میں کس طرح یہ مانا جائے کہ سنگھ تشدد کے خلاف ہے؟اگر واقعی ایسا ہے تو مودی یا بھاگوت یا سنگھ و بی جے پی کا کوئی بھی بڑا لیڈر گوڈسے کے خلاف لب کشائی سے کیوں گریزاں نظر آتا ہے؟ کیوں گوڈسے کو برا کہنے پر فرقہ پرست عناصر چراغ پا ہوتے ہیں؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔