کیا ہندوستان عملاً ایک ہندو ملک بن چکا ہے؟
وزیر اعظم مودی نے مندروں کی تعمیر، مرمت اور پوجا کو جس طرح سرکاری تقریب میں تبدیل کیا ہے اس سے اس سوال کا پیدا ہونا فطری ہے کہ کیا وہ ایک سیکولر ملک کے وزیر اعظم کے بجائے ایک ہندو ملک کے حکمراں ہیں
ایودھیا میں 22 جنوری کو بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر ہونے والے رام مندر کے پران پرتشٹھا سے قبل جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی مندر مندر درشن کرتے رہے اور جس طرح انھوں نے گیارہ دنوں تک اپنی زندگی کے شب و روز کو تبدیل کیا اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی سیکولر ملک کے وزیر اعظم نہیں بلکہ کسی ہندو ملک کے راجہ ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ خیال بھی ابھر رہا ہے کہ کیا ہندوستان عملاً ایک ہندو ملک بن چکا ہے۔ دیر صرف اس کے اعلان کی ہے یا اس آئین کو ختم کر دینے کی ہے جو اس ملک کی تکثیریت کی بنیاد ہے اور جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس خیال کو پختہ کرنے میں اس ملک کے میڈیا نے بھی حصہ لیا ہے۔ خواہ وہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا۔ نیوز چینلوں پر تو ایک عرصے سے رام مندر کے علاوہ کوئی خبر نہیں ہے اور اخبارات بھی اسی کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : اسلامی ممالک آپسی ’سر پھٹول‘ میں مصروف!
وزیر اعظم نریندر مودی نے مندروں کی تعمیر اور تعمیر نو اور مرمت کر کے اور مندروں میں پوجا کے اپنے دھارمک رجحانات کو جس طرح سرکاری تقریب میں تبدیل کیا ہے اس سے اس سوال کا پیدا ہونا فطری ہے کہ کیا وہ ایک سیکولر ملک کے وزیر اعظم کے بجائے ایک ہندو ملک کے حکمراں ہیں۔ ان کے مندر پریم اور بالخصوص صدیوں پرانے ایودھیا تنازعے کو حل کرنے کے کریڈٹ نے ان کو ہندو ہردیے سمراٹ بنا دیا ہے اور وہ اسی امیج کی بنیاد پر 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے میدان میں اترنا چاہتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر بی جے پی اور آر ایس ایس رام مندر افتتاح سے پیدا ہونے والے جوش کو اس وقت تک برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر مودی کو ہرا پانا آسان نہیں ہوگا۔ علاوہ یہ کہ اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے ہر امیدوار کے مقابلے میں صرف ایک امیدوار اتاریں۔
رام مندر کے افتتاح سے قبل پورے ملک میں جس قسم کا ماحول بنایا گیا اور جیسی تیاریاں کی گئیں اور جس طرح بھگوا رنگ سے پورے ملک کو اور خاص طور پر شمالی ہند کو رنگ دیا گیا ہے اس سے بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان عملاً ایک ہندو ملک بن چکا ہے۔ صرف ہندو مذہب کے ماننے والوں کی عزت افزائی ہے اور باقی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ویسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے تمام سرکاری محکموں میں کلیدی عہدوں پر آر ایس ایس کے لوگوں کو بٹھا دیا گیا ہے جو آر ایس ایس کے نظریات کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ جو کوئی بھی حکومت کے اقدامات کی مخالفت کرتا ہے اسے ہندو مذہب کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ جب سے رام مندر کے افتتاح کا معاملہ اٹھا ہے سناتن دھرم موضوع گفتگو ہے اور جہاں بھی کوئی بات ہوتی ہے فوراً کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ کام یا وہ آدمی سناتن ورودھی ہے۔ بی جے پی یا آر ایس ایس کے کسی بڑے لیڈر کا کسی کے بارے میں یہ کہہ دینا ہی کہ وہ سناتن ورودھی ہے اس کو ہندو معاشرے میں ایک ولین کے طور پر پیش کر دینے کے لیے کافی ہے۔
اس درمیان اس کا پرچار بھی خوب کیا گیا اور کیا جا رہا ہے کہ ہندوؤں نے پانچ سو سال کی قربانی کے بعد یہ لمحہ پایا ہے جب شری رام جی ایودھیا لوٹ رہے ہیں۔ حالانکہ کچھ سنجیدہ ہندو یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ رام جی گئے کہاں تھے جو لوٹ رہے ہیں یا رام جی تو دلوں میں رہنے والے ہیں ان کو کسی عمارت میں بٹھانا کہاں تک مناسب ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مریادا پرشوتم رام کے آدرشوں کی بار بار دہائی دی جاتی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ وہی لوگ ان کے آدرشوں کو پیروں تلے روند رہے ہیں۔ بعض تاریخ دانو ں کا خیال ہے کہ رام مندر کے لیے پانچ سو سال کی جدوجہد کا کوئی ثبوت نہیں۔
مورخین کے مطابق ایودھیا میں بابری مسجد کی تعمیر 1528 میں میر باقی نے بابر کے حکم پر کرائی تھی۔ ہندوؤں کی جانب سے 1859 میں پہلی بار دعویٰ کیا گیا کہ بابری مسجد کی تعمیر رام مندر کو توڑ کر کی گئی ہے۔ مارچ 1934 میں اس معاملے پر فریقین میں ٹکراؤ ہوا جس کے نتیجے میں مسجد اور اس کے گنبد کو نقصان پہنچا۔ برٹش حکومت نے اس کی مرمت کروا دی۔ 1949 میں 21 اور 22 دسمبر کی درمیانی شب میں کچھ لوگوں نے بابری مسجد کے اندر مورتی رکھ دی اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ رام جی پرکٹ ہوئے ہیں۔ مسجد کے باہر تعینات ہندو کانسٹیبل نے صبح کو پولیس میں اس کی رپورٹ درج کرائی جس میں اس نے کہا کہ کچھ لوگوں نے چپکے سے مسجد میں مورتی رکھ دی ہے۔
لیکن اس وقت بھی یہی پروپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ رام جی پرکٹ ہو گئے ہیں اور اب بھی یہی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے 19 جنوری کو کہا کہ 1949 میں رام جی پرکٹ ہو گئے تھے۔ انھوں نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ رام مندر کے لیے صدیوں سے لڑائی جاری تھی۔ ان کے مطابق اس معاملے میں قانونی لڑائی کو 134 سال ہو گئے۔ اتنی لمبی لڑائی کے بعد رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔ اس موقع پر انھوں نے سلسلہئ واقعات بیان کیا اور اسلام پر ہندوستان میں حملہ کرنے اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو مسمار اور تباہ کرنے کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب رام مندر کی تعمیر کے ساتھ ایک نئے بھار ت کی تعمیر ہو رہی ہے۔ ان کے اس پورے بیان کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ اب جا کر ہندوستان ایک ہندو ملک بنا ہے یا اگر اس کے پوری طرح ہندو ملک بننے میں کچھ کمی رہ گئی ہے تو وہ اب پوری ہو جائے گی۔
سیاسی مشاہدین کا خیال ہے کہ اگر چہ اس ملک میں سیکولر طبقہ بہت بڑا ہے اور مثبت سوچ کے لوگ بھی کم نہیں ہیں لیکن ایسے لوگوں کو سرکاری سرپرستی میں دبا دیا گیا ہے یا دبایا جا رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور ایک ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ حکومت کے خلاف بولنے سے پہلے سوچنا پڑے۔ یعنی حکومت جو کر رہی ہے وہی درست ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی پھر کامیاب ہو گئی تو اس کے بعد آئین کو بالکل ہی ختم کر دیا جائے گا اور طاقت کے بل پر پارلیمنٹ سے ہندو راشٹرا کے حق میں قانون سازی کرالی جائے گی۔ یا دنیا کو دکھانے کے لیے اگر قانون نہیں بھی بنایا گیا تب بھی ایسے اقدامات کیے جائیں گے کہ یہ ملک سیکولر نہ رہے بلکہ مکمل طور پر ہندو ملک ہو جائے۔ اگر عالمی سطح پر اس اقدام کی مخالفت ہوگی تو پھر یہی کہہ دیا جائے گا کہ یہ ہمارے اندرونی امور میں مداخلت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔