مغرب میں بڑھتی عدم برداشت، انسانی حقوق اور بنیادی وجود کے لیے خطرہ... حمرا قریشی

مغرب میں عدم برداشت تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس سے انسانی حقوق اور زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ بدلتے عالمی نظام میں بنیادی وجود کے تحفظ پر بھی توجہ نہیں دی جا رہی

غزہ میں اسرائیلی بمباری کے بعد کا منظر
غزہ میں اسرائیلی بمباری کے بعد کا منظر
user

حمرا قریشی

اسرائیلی فوج کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں مسلسل بمباری اور ہلاکتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ متاثرہ ممالک کی شہری آبادی خوف اور تباہی کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس تباہی کے اثرات ہمارے ملک ہندوستان پر بھی ظاہر ہونے لگے ہیں۔ روزگار اور ملازمت کے مواقع، تجارت و کاروبار، سیاحت، اور تعلیمی سمیناروں و میٹنگوں میں ماہرین کی شرکت جیسے شعبے بھی موجودہ حالات کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔

90 کی دہائی میں جب امریکہ نے عراق میں دراندازی کی، تب سے ہی ملک میں تبدیلی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عراق میں امریکی حملہ سے قبل ہندوستان میں عراقی سفارت خانہ (جو اُس وقت نئی دہلی کے بھیڑ بھاڑ والے علاقہ جور باغ میں تھا) ’زندہ‘ تھا۔ اس سفارت خانہ میں 40 سے زائد عراقی سفر تھے اور چہل پہل سے ماحول گلزار تھا۔ جونیئر ملازمین بھی یہاں موجود تھے جن کی تعداد تقریباً دوگنی تھی۔ 90 کی دہائی میں جب ’سبھی جنگوں کی ماں‘ یعنی امریکہ-عراق جنگ عروج پر تھی تو میں ہندوستان میں اُس وقت کے عراقی سفیر کا انٹرویو لینے کے لیے کئی مواقع پر عراقی سفارت خانہ گئی تھی۔ میں نے وہاں بڑی تعداد میں جمع ہوئے سکھوں، مسلمانوں اور ہندوؤں سے ملاقات بھی کی تھی جو صدام حسین کے لیے حمایت کا اظہار کر رہے تھے۔ میں نے خود دیکھا کہ کئی ہندوستانی کنبے بڑے بڑے راشن کے کنٹینر اور دوا کے ڈبے لے کر پہنچ رہے تھے اور گزارش کر رہے تھے کہ انھیں امریکیوں سے لڑ رہے عراقی فوجیوں کو بھیجا جائے۔ مغربی پروپیگنڈہ کے مطابق صدام حسین ایک تاناشاہ تھا، لیکن نئی دہلی میں رہنے والے عراقی سفیر اس کے بالکل برعکس نظر آتے تھے۔ عراقی سفیر اور ان کے کنبے وقت سے بہت آگے محسوس ہوتے تھے۔ یہ سفیر اور ان کے رشتہ دار تعلیم یافتہ، خوش لباس بلکہ مغربی لباس زیب تن کیے ہوئے اور بیشتر روانی کے ساتھ انگریزی بھی بولتے تھے۔ مجھے اُس وقت کے عراقی سفیروں کے ذریعہ پرتھوی راج روڈ پر ان کے سرکاری بنگلے (جو پنڈت جواہر لال نہرو نے 1950 کی دہائی میں ہندوستان میں تعینات پہلے عراقی سفیر کو بطور تحفہ دیا تھا) پر منعقد استقبالیہ تقریب اچھی طرح یاد ہے۔ وہ استقبالیہ تقریب تب تک جاری رہا جب تک عراق حقیقی معنوں میں عراق نہیں بن گیا۔ یہ 17 جولائی کی بات ہے جب عراق کے ’نیشنل ڈے‘ کے موقع پر عراقی دانشوروں، صحافیوں اور مصنفین کے علاوہ عراق کے کئی شہروں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسران کے ساتھ کئی استقبالیہ تقاریب منعقد کیے گئے۔ بے شک یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب امریکہ اور اس کے دوست ممالک کی افواج نے ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحوں کی تلاش‘ کے بہانے عراق میں دراندازی کی اور اسے برباد کر دیا، لیکن وہ کوئی اسلحہ تلاش نہیں کر پائے۔ اس کی جگہ انھوں نے اس زمین، اس کے بنیادی ڈھانچے، اس کے لوگوں اور ایک قدیم ثقافت کو تباہ کر دیا۔


ہندوستان میں عرب سفیروں کے ذریعہ 90 کی دہائی میں منعقد کی گئی ثقافتی شاموں کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے پہلی بار جب قطر کے اُس وقت کے سفیر برائے ہندوستان ڈاکٹر حسن النعمہ کی رہائش پر ’دھروپد کنسرٹ‘ میں شرکت کی تھی۔ وہ ان شائستہ سفیروں میں سے ایک تھے جنہوں نے اس روایتی ’بیٹھک انداز‘ میں کلاسیکی موسیقی کی شاموں کی میزبانی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لبنان، عراق، لیبیا، اردن اور الجیریا کے سفیر بھی اپنی رہائش گاہوں اور سفارت خانوں پر باہمی ملاقاتوں کی میزبانی کرتے تھے۔ آج مجھے پوری طرح یقین نہیں کہ نئی دہلی میں عرب لیگ کا دفتر اب بھی اس آب و تاب کے ساتھ کام کرتا ہے یا نہیں۔ آخر کار مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیائی ممالک کی انتہائی تابندہ اور پرجوش طاقت آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان میں سے کئی ممالک مختلف محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہتھکنڈوں و حکمت عملیوں سے تباہ ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی خانہ جنگی جیسی صورت حال پیدا کرنے کی پرانی مغربی سازش کا استعمال کر رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی وہ حکومت کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں!

ہم ہندوستانیوں کے لیے حالات کو مزید پیچیدہ بنانے والی بات یہ ہے کہ ہندوستان کا اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کی طرف جھکاؤ ہے۔ اسرائیل کے تئیں یہ جھکاؤ 2014 سے ہی واضح تھا، جو 2017 کی گرمیوں (یعنی جولائی) میں مزید واضح ہو گیا جب ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کا اپنا پہلا دورہ کیا تھا۔

یہ جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے دور میں اختیار کیے جانے والے رخ سے بہت مختلف تھا۔ درحقیقت مغربی ایشیا کے تئیں جواہر لال نہرو کی دور اندیشی اور پالیسیوں نے عرب ممالک کو ہندوستان سے قریب کر دیا تھا۔ وہ فلسطین سے متعلق اپنے رخ کے بارے میں بہت واضح تھے، اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے عرب و مغربی ایشیائی ممالک کو ہندوستان کا مضبوط اتحادی بنا دیا تھا۔ آج نہرو نہیں ہیں اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ روابط کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔ میں نے ہندوستان میں فلسطینی سفیروں کی پریس کانفرنس میں شرکت کی ہے اور ہندوستانی عوام کے درمیان ان کے ذریعہ پیدا کیے گئے جذبات کو بھی دیکھا ہے۔ مجھے وہ فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کا اندرا گاندھی کو گرمجوشی سے گلے لگانا یاد ہے، جب اندرا نے نئی دہلی میں ان کے لیے ایک عالیشان استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا تھا۔


آج یہ سب کچھ تاریخ بن چکا ہے، کیونکہ بدلتے عالمی نظام میں تشویش ناک حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات جہاں انسانی زندگی، حتیٰ کہ بنیادی وجود کے لیے بھی کوئی فکر نہیں ہے۔ خطہ عرب پر موجودہ اسرائیلی جنگ کا ایک بڑا منفی اثر نوجوانوں کے مستقبل پر پڑا ہے۔

سیاسی جنگوں اور خانہ جنگی کے شکار سینکڑوں و ہزاروں عرب بچے یا تو ہلاک ہو چکے ہیں، یا ہلاکت کے دہانے پر ہیں۔ جو بچے ہوئے ہیں، ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ کیا ہم سب نے شامی، فلسطینی، یمنی بچوں اور ان کے کنبوں کی تصویریں یا ویڈیوز نہیں دیکھی ہیں جو انتہائی مایوسی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں۔ کئی لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی، حتیٰ کہ کچھ لوگ یوروپ پہنچنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ لیکن انھیں غیر ملکی سمجھ کر کئی طرح کے القاب دے دیے گئے، مثلاً مشتبہ، درانداز، پناہ مانگنے والے بھکاری!

یہ کتنا دردناک ہے کہ کئی بچے کسی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی جاں بحق ہو گئے۔ مہینوں تک میں شامی بچے ایلان کردی کی تصویر بھول نہیں پائی جو سمندر کے کنارے مردہ پڑا تھا۔ پناہ گزیں اس بچے کی معصومیت سینکڑوں پناہ گزینوں کے درد سے جڑی ہوئی ہے جو کسی نامعلوم مقام کی طرف بھاگ رہے تھے۔ اس نے پناہ لینے کی کوشش کر رہے لوگوں کی سنگین حقیقت کو سامنے لا دیا۔ یوروپی دایاں محاذ لابی نے راستے میں آ کر سینکڑوں اور ہزاروں ایلان کردیوں کی قسمت پر تالا لگا دیا۔

اس سے پہلے کہ میں ایلان کردی کی موت سے باہر نکل پاتی، مجھے جس چیز نے پریشان کر دیا وہ تھی چار سالہ زخمی شامی بچے عمران دقنیش کی خوفناک تصویر۔ زندہ ہوتے ہوئے بھی وہ بے جان لگ رہا تھا۔ اس کا جسم خون اور دھول سے لپٹا ہوا تھا۔ وہ رو نہیں رہا تھا اور اس کی وجہ درد یا صدمہ تھی۔ اور پھر عمران کے بڑے بھائی دس سالہ علی دقنیش کی زخموں کی تاب نہ لانے کے سبب انتقال کی خبر آئی۔ شام اور اس کے آس پاس بمباری اور بہت زیادہ تباہی کے سبب سینکڑوں بچے و ان کے اہل خانہ ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں۔


سچ تو یہ ہے کہ مغربی دنیا میں عدم برداشت کی سطح اتنی بڑھ گئی ہے کہ پناہ گزیں بچوں کو بھی ممکنہ خطرے کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔ پناہ گزیں بچوں کی موت کا مذاق اڑانے والے ظالم کارٹونسٹ چارلی ہبدو جیسی فرانسیسی اشاعتوں نے شامی بچے ایلان کردی کی افسوسناک موت کا مذاق کیوں اڑایا! کیا یہ مذاق انتہائی بیہودہ اور بہت بے حسی والا نہیں تھا!

گرچہ آج تک عرب سرزمین سے پناہ کے متلاشی برصغیر کے اس حصے (ہندوستان) تک نہیں پہنچ پائے ہیں (غالباً جغرافیائی رکاوٹوں کی وجہ سے)، لیکن اگر وہ یہاں تک پہنچ پاتے ہیں تو انھیں مزید ایک تاریک حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حقیقت کا سامنا کہ آج ہندوستان میں سینکڑوں لوگ داخلی طور پر بے گھر ہیں۔ کئی قبیلے اور خاندان ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کو مجبور ہیں، کیونکہ اراضی اور سیاسی مافیا کمزور طبقات کو ہدف بنا رہے ہیں۔ انھیں اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر بھاگنے اور اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کی طرح زندگی گزارنے کو مجبور کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔