گراؤنڈ رپورٹ: ’یہ وہ بنگلہ دیش نہیں ہے جس کے لیے ہم لڑے تھے‘

’آزادی‘ کے چند گھنٹوں کے اندر ہی تقریبات افراتفری میں بدل گئیں۔ ہجوم کا وہ چہرہ خوفناک تھا، ہم جہاں بھی گئے، ماحول کم و بیش ایک جیسا تھا

<div class="paragraphs"><p>بنگلہ دیش بحران / Getty Images</p></div>

بنگلہ دیش بحران / Getty Images

user

نظیفہ رائدہ

ڈھاکہ سے نظیفہ رائدہ

بنگلہ دیش نے 5 اگست 2024 کو دوپہر 2 بجے ایک آمر سے آزادی حاصل کی۔ اب بھی یقین نہیں آتا کہ میں آخر کار سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے لیے پرنٹ میں 'آمر' کا لفظ استعمال کر سکتی ہوں کیونکہ ہمارا قانون ہمیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔

اس دوپہر میں اور میرا بھائی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور باہر سڑک پر چلے گئے۔ ماحول میں جوش و خروش تھا۔ میں نے سڑکوں پر اتنے لوگوں کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لوگ بچوں کو کندھوں پر اٹھائے جیت کے نعرے لگا رہے تھے۔ رکشہ والوں نے طلباء کو سلام کیا۔ کچھ اپنے رکشوں پر کھڑے ہو گئے اور اعلان کیا کہ اب وہ کسی آمر، غنڈے یا بھتہ خور کو اپنے اوپر راج نہیں کرنے دیں گے۔

ہر طرف سکون تھا۔ طلباء، صحافیوں اور کارکنوں کی جبری گمشدگی، احتجاج کرنے والے طلباء کے گھروں پر پولیس کے چھاپے اور بنگلہ دیش چھاتر لیگ (بی سی ایل) کے ہاتھوں طلباء کی ہلاکتیں رک گئی تھیں۔ بنگلہ دیش (فی الحال) سنسر شپ سے آزاد تھا۔ تاہم موتی جھیل سے شاہ باغ کی طرف جاتے ہوئے ہماری خوشی جلد ہی خوف میں بدل گئی۔ موتی جھیل میں سونالی بینک کے سامنے جمع بھیڑ شیخ حسینہ کے پوسٹر پھاڑ رہی تھی اور ہم خوش ہو رہے تھے۔ پھر میں نے کچھ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ عوامی لیگ کے دور میں بنی تمام تعمیرات کو گرا دیا جائے۔ ہم نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا، یہ سوچ کر کہ لوگ عوامی طور پر اظہار خیال کرنے کی اپنی نئی آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور کچھ انتہا پسندانہ خیالات بھی سامنے آئیں گے۔

یہ سوچ کر ہم آگے بڑھے لیکن جیسے ہی ہم شاہ باغ کی طرف بڑھے تو ہمارے چہروں سے مسکراہٹیں غائب ہونے لگیں۔ کچھ لوگ فوج کے جوانوں کو کندھوں پر اٹھا کر جشن منا رہے تھے، یہ مان رہے تھے کہ فوج نے انہیں آزادی دی ہے۔ وہ بکتر بند گاڑیوں پر چڑھ گئے، جھنڈے لہرائے اور ناچنے لگے۔ ایسے مظاہرے سے بہت سے لوگ بے چین ہوئے اور منہ پھیر لیا لیکن ہماری طرح انہوں نے بھی اسے نظر انداز کر دیا کیونکہ ہم جشن آزادی منا رہے تھے!


جب ہم سہروردی باغ کے پاس سے گزرے تو ہمیں دھویں کا غبار نظر آیا اور یہ دیکھنے کے لیے اندر داخل ہوئے کہ کیا ہوا ہے۔ شرپسندوں نے عوامی لیگ کے بڑے پلیٹ فارمز کو آگ لگا دی تھی۔ بنگ بندھو کی 7 مارچ کی تاریخی تقریر کی یاد میں ایک مجسمہ کو بھی آگ لگا دی گئی۔ میں نے لوگوں سے آگ بجھانے کو کہا کیونکہ اگر آگ درختوں تک پھیل جاتی تو پارک خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ ہماری نصیحت پر شرپسندوں نے ہمیں حقارت سے دیکھا۔ ایک طالب علم اپنا شناختی کارڈ لے کر دوڑتا ہوا آیا اور کہا، ’’ہم نے انہیں آگ لگانے سے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے۔‘‘

اب میں پریشان ہونے لگی تھی۔ ہم پھر سے آگے بڑھنے لگے۔ جلتے ہوئے پنڈال سے گزرے۔ دھواں اتنا گھنا تھا کہ سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ ایک جگہ لوگوں کا ہجوم چھاتر لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم کی پٹائی کر رہا تھا۔ بھیڑ میں سے کچھ لوگوں نے بتایا کہ نوجوان کے پاس سے ایک ہتھیار ملا ہے۔ کچھ طلبہ اسے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ بار بار یہ نعرہ لگا رہے تھے کہ اسے فوج کے حوالے کر دینا چاہیے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ ہم نے بھی آواز اٹھائی اور مظلوم کے گرد دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ہجوم کا موڈ خراب تھا اور جلد ہی لوگوں نے ہم پر حملہ کر دیا۔ طلبہ ہمیں لیگ کے اتحادی اور 'رضاکار' کہنے لگے۔

احتجاجیوں کے طور پر ہم نے لوگوں کو، خاص طور پر طالب علموں کو قریب سے فائرنگ سے زخمی، گرتے اور ہلاک ہوتے دیکھا ہے۔ یہ ستم ظریفی تھی کہ اب ہمیں ایک ایسے شخص کی جان بچانے کے لیے زد و کوب گیا جا رہا تھا جس سے ہم نفرت کرتے تھے۔ جلد ہی ہجوم نے ان لوگوں کو منتشر کر دیا جنہوں نے اسے بچانے کی کوشش کی اور غریب آدمی کو گھسیٹ کر لے گئے اور اسے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ ہمیں وہاں سے جانا پڑا کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ ہجوم ہم پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔

ہم میں سے کچھ لوگ شاہ باغ چوراہے کی طرف بھاگے اور فوجی اہلکاروں سے ہجوم کو منتشر کرنے کی درخواست کی لیکن اس نے ہاتھ اٹھائے۔ پھر ہمیں احساس ہونے لگا کہ جو افراتفری ہم نے دیکھی تھی وہ تو صرف شروعات تھی۔ چلتے پھرتے، ہمیں ہندو برادریوں پر ہونے والے تشدد، مندروں کو جلانے اور پولیس اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کے ارکان اور ان کے خاندانوں پر مسلسل حملوں کے بارے میں علم نہیں تھا۔


میں شام 5 بجے کے قریب 'دی ڈیلی اسٹار' کی عمارت کی طرف چل پڑی۔ بائیک پر سوار لوگ خواتین کو گالیاں دے رہے تھے۔ ہجوم کارواں بازار میں واقع ٹی وی نیوز چینلز کے دفاتر کو نشانہ بنا رہا تھا جو حکام کے خوف سے طلباء کے احتجاج کو ٹیلی کاسٹ نہیں کر رہے تھے۔ اے ٹی این بنگلہ کا دفتر پانچویں منزل تک مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ لوگ جو کچھ بھی ملے وہ لے کر بھاگ گئے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے لگا کہ اگر میں نے کچھ کہا تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ میں دنگ رہ گئی۔ سینکڑوں طلباء اور عوام کے احتجاج کا کیا مطلب تھا؟ ابو سعید، میر مگدھو اور فرحان فیاض جیسے لوگوں کے جان قربان کرنے کا کیا مطلب تھا؟ کیا یہ وہ آزادی تھی جس کے لیے وہ لڑے تھے؟ کیا ہم ’آزادی‘ کے ابتدائی اوقات میں ملک بھر میں ایسی ہی تصویر دیکھنا چاہتے تھے؟ اگر ہم اپنی اقلیتی برادریوں کی پرواہ نہیں کرتے تو کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

ہمارے درمیان ایسے بنیاد پرست گروہ تھے جو خواتین کے خلاف اس دلیل کے ساتھ کریک ڈاؤن کرنے کے لیے بے چین تھے کہ اگر آپ خواتین کو بااختیار بنائیں گے تو آپ کو شیخ حسینہ جیسے آمر مل جائیں گے۔ میں یہ سن کر اور بھی خوفزدہ تھی کہ ہجوم نے اپنی بربریت کا جواز اس التجا کے ساتھ کیا، ’’انہوں نے ہمارے ساتھ جیسا کیا، ہم ان کے ساتھ ویسا ہی کریں گے۔‘‘

طلبہ نے اپنی جان اس لئے قربان نہیں کی تھی کہ ایسا غنڈہ راج آ جائے۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ لوگ خواہ وہ کسی بھی پس منظر سے کیوں نہ ہوں، انہیں بولنے، انصاف مانگنے اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا حق حاصل ہو۔ اس تحریک کو 'تعصب مخالف تحریک' کہا جاتا ہے اور ہم اسے کسی بھی طرح سیاست کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ آپ دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح بی این پی طلبہ کو انصاف دلانے کے نام پر تحریک میں شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔

مجھے فخر ہے کہ جن طلبہ لیڈروں پر میں نے بھروسہ کیا انہوں نے تشدد کی مخالفت کی اور نگراں دستے قائم کئے۔ مجھے فخر ہے کہ وہ مسلسل اعادہ کر رہے ہیں کہ یہ بربریت ہمارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ ثابت قدم رہیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ظالموں کے ایک گروہ کی جگہ دوسرا مسلط نہ ہو جائے۔


یہ بڑی تبدیلی کا وقت ہے۔ ہمارے پاس اپنے خوابوں کے بنگلہ دیش کی تعمیر نو کا موقع ہے۔ سول سوسائٹی کو اب بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سول سوسائٹی کے گروپوں نے تھانوں کو تباہ ہونے سے روکنے کے لیے انسانی زنجیریں بنائیں، انہوں نے گونو بھون سے چوری ہونے والی اشیاء کی واپسی میں مدد کی، مساجد کے امام طلبہ کے ساتھ مندروں کے باہر نگراں ٹیموں میں شامل ہوئے تاکہ ان کی حفاظت کی جا سکے۔ یہ وہی بنگلہ دیش ہے جس کا میں نے خواب دیکھا تھا، جس کا خواب میرے دادا نے جنگ آزادی کے دوران ایک طالب علم کے طور پر دیکھا تھا اور جس کے لیے لاتعداد لوگوں نے گولیاں کھائیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان تمام قسم کی ناانصافیوں کو بے نقاب کیا جائے جنہوں نے اتنے عرصے سے مطلق العنان حکمرانی کے تحت معاشرے پر پابندی عائد کر دی۔ نہ صرف سیاستدان بلکہ تاجر بھی جو عوامی لیگ کے تلوے چاٹتے تھے اب طلباء کی حمایت کا مظاہرہ کریں گے، ایسی اداکاری کریں گے گویا وہ ہمیشہ سے ان کی حمایت کر رہے تھے۔

یہ وقت ہے کہ ہم تمام محاذوں پر چوکنا رہیں، آزادی کو حاصل کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ اگر اور کچھ نہیں تو اس احتجاج نے ثابت کر دیا کہ طلباء میں ایک مطلق العنان حکمران کا تختہ الٹنے کی طاقت ہے۔ اگر کوئی آزاد بنگلہ دیش کی تعمیر کی راہ میں حائل ہو تو ہم اسے دوبارہ کر سکتے ہیں۔ ہمارا کام ابھی شروع ہوا ہے۔

(نظیفہ رائدہ انسانی حقوق کی کارکن اور سابق صحافی ہیں۔ ان کا یہ مضمون پہلی بار 'ڈیلی اسٹار' میں شائع ہوا تھا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔