عظیم انقلابی مولانا عبیداللہ سندھی... یوم وفات کے موقع پر خصوصی پیشکش
مولانا عبیداللہ سندھی نے ریشمی رومال تحریک میں اہم رول انجام دیا، جو ہندوستان کوآزاد کرانے والی پہلی بین الاقوامی مہم تھی لیکن آستین کے سانپوں کی بدولت اس کا پردہ فاش ہونے سے تمام خواب چکنا چور ہوگئے۔
مولانا عبید اللہ سندھی برصغیر کے ایک مفکر، عالم دین اور عظیم انقلابی رہنما تھے، جنہوں نے حب الوطنی اور اپنے استاد اسیر مالٹا مولانا محمود الحسن کے حکم پر اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ یعنی 25 برس جلا وطنی میں گزارا اور سخت صعوبتیں برداشت کیں مگر قدموں میں لغزش پیدا نہ ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں : جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار (2)... شاہد صدیقی (علیگ)
مولا نا عبید اللہ سندھی 10 مارچ 1872 کو میاں والی ضلع سیالکوٹ کے ایک اپل کھتری خاندان میں پیدا ہوئے ان کا ابتدائی نام بوٹا سنگھ تھا، جن کی ولادت سے چار ماہ قبل ہی ان کے والد سردار رام سنگھ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، لہٰذا کچھ عرصہ بعد ان کی والدہ پریم کور اپنے بھائی کے گھر جے پور ضلع ڈیرہ غازی خاں آگئی جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
ان کے ایک آریہ سماجی دوست نے تحفۃ الہند کتاب دی جسے پڑھنے کے بعد اتنا گہرا اثر ہوا کہ سولہ سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ مذہب اسلام سے مزید بہرہ مند اور آگے کی تعلیم کے لیے سندھ پہنچے جہاں مختلف کتابیں پڑھنے کے علاوہ ایسی انقلابی ذہنیت کے حامل لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، جنہوں نے مولانا کے نظریات یکسر تبدیل کر دیئے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند پہنچے اور جلد ہی منطق، عربی، گرامر اور فلسفہ پر عبور حاصل کر لیا، علاوہ ازیں انہیں مختلف اوقات میں اسلامی اسکالرز بشمول مولانا رشید گنگوہی اور محمود الحسن سے بھی قربتیں حاصل ہوئیں، جن کے ثمرات سے عبیداللہ سندھی ایک ہفت پہلو شخصیت کے مالک بن کر ابھرے۔
دیوبند سے فراغت حاصل کرنے کے بعد سکر واپس آ کر درس و تدریس کی ذمہ داری انجام دینے لگے لیکن 1909 میں مولانا محمود الحسن کے حکم کی تعمیل میں واپس دیوبند پہنچے، جہاں تمام سابق طلبہ کی تنظیم جمیعت الانصار کی تشکیل کے سلسلے میں قابل ذکر خدمات انجام دیں، لیکن کچھ بے گانہ لوگوں کی نظروں میں ان کی مخلص سرگرمیاں کانٹوں کی طرح کھٹکنے لگیں تو وہ دیوبند سے دلّی چلے آئے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن مدنی برطانوی حکومت کے خلاف بیرونی قوتوں کے تعاون سے ایک طاقتور محاذ قائم کرنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے اپنے منصوبہ کو بروئے کار لانے کے لیے اپنے قابل اعتماد شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی کو افغانستان جانے کا حکم دیا۔
چنانچہ اگست 1915 کو مولانا عبیداللہ سندھی کابل روانہ ہوئے تاکہ افغانستان سے فوجی امداد حاصل ہوسکے۔ انہوں نے مولانا محمود الحسن کے صلاح ومشورے پر افغان سردار حبیب اللہ خاں کی معاونت سے 1916 میں افغانستان میں ایک عبوری آزاد ہند حکومت قائم کی۔ اس عبوری حکومت کے صدر راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی اور وزیر داخلہ مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔ عارضی حکومت نے مختلف ممالک میں اپنے وفود روانہ کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی بلیغ تن دہی کی۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے ریشمی رومال تحریک میں اہم رول انجام دیا، جو ہندوستان کو آزاد کرانے والی پہلی بین الاقوامی مہم تھی لیکن آستین کے سانپوں کی بدولت اس کا پردہ فاش ہونے سے تمام خواب چکنا چور ہوگئے۔
شیخ الہند مولانا محمود الحسن کو گرفتار کر کے 21 فر وری 1917 کو بحر روم کے جزیرے مالٹا بھیج دیا، عبیداللہ سندھی اور دیگر ساتھیوں کو متعدد برس گوشہ نشیں رہنا پڑا۔ بعد ازاں مولانا عبیداللہ سندھی روس پہنچے، جہاں وہ تقریباً پانچ چھ ماہ رہے۔ 1923 میں روس سے ترکی روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے استنبول میں ہندوستان کی آزادی کا منشور شائع کیا۔ دو سال ترکی میں گزارنے کے بعد دیگر ممالک کا دورہ کرتے ہوئے سعودی عرب پہنچے جہاں انہوں نے تقریباً 14 سال گزارے۔
سال 1936 میں کانگریس اور دیگر قومی جماعتوں نے حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کی ہندوستان واپس آنے کی کوششیں شروع کیں تو برطانوی حکام نے بھی اجازت دے دی۔ لہٰذا مولانا عبیداللہ 7 مارچ 1939 کراچی بندرگاہ پر اْترے۔ حکومتِ سندھ کے وزیر اعظم خان بہادر اللہ بخش سومرو نے عمائدین کے ساتھ آپ کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ وطن واپس آ کر دہلی میں بود باش اختیار کی اور شاہ ولی اللہ کے اصولوں اور نظریات کی نشر و اشاعت کرنے لگے۔ عبیداللہ 1944 میں اپنی بیٹی کی عیادت کے لیے رحیم یار خان روانہ ہوئے لیکن دین پور (خان پور) جاکر شدید بیمار ہوگئے اور 21 اگست 1944 مطابق 2 رمضان المبارک 1363 بروز منگل کو آخری سانس لی۔
یہ بھی پڑھیں : بلقیس بانو جیتے جی ایک نہیں دو بار مر گئی... ظفر آغا
مولانا عبیداللہ سندھی ہندو ومسلم اتحاد کے نقیب تھے۔ ان کے نزدیک ہر شخص کو خدا پیدا کیے ہوئے بندوں سے محبت کرنی چاہیے جو ایسا نہیں کرتا وہ سچا خدا پرست نہیں ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ملک کی گنگا-جمنی تہذیب کی حفاظت اور بقا کے لیے مولانا عبیداللہ سندھی کے نظریات وخیالات پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔