عظیم مجاہد آزادی مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی (131ویں یوم پیدائش کے موقع پر خصوصی پیشکش)

وطن عزیز کو انگریزی پنجوں سے آزاد کرانے کے لیے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہو گئے اور خلافت و عدم تعاون تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا۔

<div class="paragraphs"><p>مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی فائل تصویر</p></div>

مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی فائل تصویر

user

شاہد صدیقی علیگ

تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں مدارس کے بوریا نشینوں اور معمر باریش غازیوں نے موت و زندگی سے بے نیاز ہو کرمیر کارواں کا کردار ادا کیا۔ جن میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی بھی شامل تھے۔ حضرت ہندوستان کے اس واحد خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو 1857ء تا 1947ء مسلسل برطانوی نوآبادیاتی نظام سے نبرد آزما رہا اور کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ مولانا کے دادا مولانا شاہ عبدالقادر لدھیانوی نے 1857ء میں انگریز حکمرانوں کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔

مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی پیدائش 3 جولائی 1892ء کو لدھیانہ میں ہوئی۔ مروجہ دستور کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا جو اس وقت جنگ آزادی کا اہم مرکز بنا ہوا تھا، جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ فرنگیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا درس بھی دیا جاتا تھا چنانچہ مولانا کی رگوں میں دوڑنے والے انقلابی لہو میں مزید روانی پیدا ہو گئی اور انہوں نے اپنی زندگی کو ملک و قوم کے لیے وقف کر دیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کی شادی مولانا عبدالعزیز کی صاحبزادی بی بی شفاعت النسا سے ہوئی۔ جنہوں نے اپنے شوہر کا ہر قدم خصوصاً تحریک آزادی میں شانہ بشانہ ساتھ دیا۔


وطن عزیز کو انگریزی پنجوں سے آزاد کرانے کے لیے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہو گئے اور خلافت و عدم تعاون تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ انہوں نے یکم دسمبر 1921ء کو شعلہ بیاں تقریر کرتے ہوئے لوگوں سے برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی اپیل کی بموجب ان کی پہلی گرفتاری عمل میں آئی۔

<div class="paragraphs"><p>پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مولانا حبیب الرحمن اور مولانا سعید الرحمن</p></div>

پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مولانا حبیب الرحمن اور مولانا سعید الرحمن

تصویر: بشکریہ شاہد صدیقی علیگ

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپریل 1929ء میں بھگت سنگھ کے مرکزی اسمبلی میں بم پھینکنے کے بعد انگریزوں کے خوف و حراس کے سبب جب کوئی بھی فرد شہید بھگت سنگھ کے خاندان کو پناہ دینے کو تیار نہیں تھا تو ایسی نازک گھڑی میں مولانا نے ان کی والدہ، بھائی اور بہن کی اپنے گھر پر تقریباً ایک ماہ تک میزبانی کی۔


مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے سنہ 1929 میں ریلوے اسٹیشنوں پر برطانوی حکومت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے پانی کے مختلف گھڑوں کے نظام کے خلاف گھاس منڈی چوک پر شدید احتجاج کیا اور اپنے رضاکاروں کے ساتھ مل کر مٹی کے برتن توڑ دیے جس کی پاداش میں تقریباً 50 رضاکاروں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی، لیکن آخر کار برطانوی حکام کو مولانا کے آگے جھکنا پڑا اور مختلف گھڑوں کا نظم ختم کر کے سب کے لیے ایک گھڑا رکھنا پڑا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے مشورے پر انہوں نے مؤرخہ 29 دسمبر 1929ء کو مجلس احرار کی تشکیل کی۔ جن کی مقناطیسی شخصیت کے سبب معاشرہ کا ہر طبقہ اس میں شامل ہوتا چلا گیا۔ جب 1931ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے دریائے راوی کے کنارے پہلی بار ترنگا لہرانے کا اعلان کیا تو اسی وقت مولانا لدھیانوی نے بھی لدھیانہ کی شاہی جامع مسجد میں ترنگا پرچم لہرانے کا عہد کیا، جنہیں روکنے کے لیے تقریباً 300 برطانوی پولیس اہلکار بھیجے گئے تاہم وہ جھنڈا لہرانے میں کامیاب رہے اور جس کے جرم میں انہیں ایک سال قید فرنگ میں گزارنا پڑا۔


ہندو مسلم اتحاد کے عظیم پیروکار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے تقسیم ہند کی پوری شدت سے مخالفت کی، لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی ثابت ہوئی۔ الحاصل جب 1947ء میں ملک تقسیم ہوا تو ان کا آبائی وطن ان کے لیے بے گانہ ثابت ہوا۔ انہیں لدھیانہ چھوڑ کر دلّی کے مہاجر کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اگرچہ مولانا کو پاکستان چلے جانے کی صلاح دی گئی، لیکن حضرت نے لدھیانہ میں ہی دوبارہ سکونت اختیار کرنے کو فوقیت دی۔

الحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے ملک و قوم کی خاطر اپنی زندگی کے بیش قیمتی 14 سال دھرمشالہ، شملہ، میانوالی، ملتان اور لدھیانہ کے مختلف زندان خانوں میں گزارے اور آخری دم تک عوام کی فلاح و بہبودی کے لیے مصروف عمل رہے۔ انہوں نے 2 ستمبر 1956ء کو آخری سانس لی تو جواہر لعل نہرو کی ایما پر دلّی کی جامع مسجد کے نزد واقع قبرستان میں سپرد لحد کیا گیا۔


مگر اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ تاریخ ہند کے صفحات میں ان کی بے لوث قربانیوں کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے، حتیٰ کہ حکومت پنجاب نے بھی مولانا کو صوبے کے دیگر انقلابیوں کی طرح سرکاری طور پر یاد کرنے میں ہمیشہ تنگ دلی کا اظہار کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔