حکومت راہل گاندھی کے جال میں پھنس گئی...سہیل انجم
راہل کی تقریر پر ایوان میں جو ہوا وہ ہوا ایوان کے باہر بھی بہت کچھ ہوا۔ تین تین مرکزی وزرا نے ایک پریس کانفرنس کر کے ان کی تقریر کو غیر اہم بنانے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے
کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں جب قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر کی تو کئی باتیں نشان زد ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ بی جے پی نے ان کی جو امیج گھڑی تھی وہ پاش پاش ہو گئی۔ انھوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایشوز پر گفتگو کرتے ہیں۔ وہ جب ایوان میں آتے ہیں تو پوری تیاری کے ساتھ آتے ہیں۔ وہ ایوان میں جھوٹ نہیں بولتے (ایوان میں جھوٹ بولنا یوں بھی غیر پارلیمانی اور قابل اعتراض ہے لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ جھوٹ بولتے ہیں)۔ راہل گاندھی کی تقریر بی جے پی رہنماؤں اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو بہت زیادہ چبھی۔ لیکن ان کی وہ بات جس نے حکومت کو سب سے زیادہ بے چین کر دیا وہ اگنی ویر اسکیم اور مذہب کے نام پر نفرت و تشدد پھیلانے کا معاملہ تھا۔
ایوان کی یہ روایت رہی ہے کہ جب قائد حزب اختلاف بولتا ہے تو حکومت کی جانب سے کوئی بھی رخنہ اندازی نہیں کی جاتی۔ اگر اس کی کسی بات پر حکومت کو جواب دینا ہوتا ہے تو اس کی تقریر کے بعد دیا جاتا ہے۔ لیکن راہل کی تقریر اتنی سخت تھی کہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور دیگر وزرا کو مداخلت کرنی پڑی۔ یعنی انھوں نے پارلیمانی روایات کو توڑتے ہوئے رخنہ اندازی کی۔ ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار نے ایک مباحثے میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے آٹھ پارلیمانی کارروائیوں کو کور کیا ہے اور ایوان میں دس وزرائے اعظم کو سنا ہے لیکن انھوں نے یہ کبھی نہیں دیکھا کہ قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران ٹوکا ٹوکی کی گئی ہو اور وزیر اعظم نے خود کھڑے ہو کر جواب دینے کی کوشش کی ہو۔ یہ پارلیمانی روایات کے برخلاف ہے۔ ایک اور سینئر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ انھوں نے نویں سے لے کر اٹھارہویں پارلیمنٹ کور کی ہے، انھوں نے یہ کبھی نہیں دیکھا کہ قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران وزیر اعظم اور دیگر وزرا کھڑے ہو کر اعتراض یا ٹوکا ٹوکی کی ہو۔
واضح رہے کہ راہل کی تقریر پر ایوان میں جو ہوا وہ ہوا ایوان کے باہر بھی بہت کچھ ہوا۔ تین تین مرکزی وزرا نے ایک پریس کانفرنس کر کے ان کی تقریر کو غیر اہم بنانے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کے تقریر کے اگلے روز جو وزیر اعظم مودی نے جواب دینے کے لیے تقریر کی تو انھوں نے ان کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس ان کا مذاق اڑایا اور اس مذاق اڑانے میں انھوں نے کم عمر بچوں کی بھی توہین و تذلیل کی۔ ان کی تقریر کسی سے ہضم نہیں ہوئی۔ انھوں نے نہ تو نفرت اور تشدد کے معاملے کا کوئی جواب دیا، نہ اگنی ویر معاملے پر کوئی وضاحت کی، نہ منی پور کے معاملے پر کوئی بیان دیا اور نہ ہی اس پر کوئی بیان دیا کہ بی جے پی ملک میں نفرت اور تشدد پھلا رہی ہے۔ انھوں نے یا تو اپنی حکومت کی نام نہاد کامیابیاں گنوائیں یا پھر راہل گاندھی کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔
جس طرح انتخابی ریلیوں میں جھوٹ بول کر عوام کو ورغلانے کی کوشش کی جاتی رہی، یہ الگ بات ہے کہ عوام ان کوششوں کے شکار نہیں ہوئے، اسی طرح ایوان میں بھی جھوٹ بولا گیا۔ جب راہل گاندھی نے بی جے پی کو نفرت اور تشدد پھیلانے والی بتایا تو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے اسے ہندوؤں کی توہین سے جوڑ دیا اور راہل سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ جس پر راہل گاندھی نے کہا کہ نہیں نہیں بی جے پی اور آر ایس ایس پورے ہندو سماج کی نمائندگی نہیں کرتے۔
راہل نے اگنی ویر کا معاملہ اٹھایا اور بتایا کہ فوج میں دو طرح کے شہید بنا دیے گئے ہیں۔ ایک وہ جو ریگولر فوج میں بھرتی ہونے والے شہید ہیں اور دوسرے وہ جو اگنی ویر اسکیم کے تحت بھرتی ہو رہے ہیں۔ انھوں نے ایک اگنی ویر کی شہادت کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا ان کے اہل خانہ کو حکومت اور فوج کی جانب سے ایک پیسہ نہیں دیا گیا۔ اس پر راج ناتھ سنگھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ جس اگنی ویر کی بات راہل جی کر رہے ہیں اس کے اہل خانہ کو تقریباً ایک کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔ حالانکہ بعد میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ انھوں نے یا وزیر اعظم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا کہ اگنی ویر کو پنشن نہیں ملتی۔ اس کو وہ سہولتیں نہیں ملتیں جو ریگولر فوجیوں کو ملتی ہیں۔
اگلے روز فوج نے ایک بیان جاری کر کے کہا کہ مذکورہ اگنی ویر کے گھر والوں کو تقریباً 98 لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ لیکن یہ راز بھی کھلا کہ یہ رقم فوج نے یا حکومت نے نہیں دی بلکہ یہ انشورنس کمپنی اور ایک دیگر ادارے نے دی۔ جب اس معاملہ نے طول پکڑا تو راہل گاندھی نے اگنی ویر کے اہل خانہ سے اپنی ملاقات کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں اگنی ویر کے والد یہ کہتے ہوئے سنے جا رہے ہیں کہ ان لوگوں کو فوج کی جانب سے کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ اس معاملے میں حکومت کی جانب سے صفائی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن بات بن نہیں رہی ہے۔ جہاں تک اگنی ویر یا اگنی پتھ اسکیم کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک انتہائی بیکار اور امتیازی اسکیم ہے۔ اس اسکیم کے تحت چار سال کے لیے ملازمت دی جاتی ہے۔ اس کے بعد آدمی بیکار ہو جاتا ہے۔ کہیں اور نوکری کرنے یا تعلیم حاصل کرنے کی اس کی عمر نکل جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ریگولر فوجیوں کو ملازمت کے دوران اور سبکدوشی کے بعد بھی بہت سی مراعات اور سہولتیں ملتی ہیں لیکن اگنی ویر کو نہ کوئی رعایت ملتی ہے اور نہ ہی کوئی سہولت۔ ان کو تنخواہ بھی کوئی زیادہ نہیں ملتی۔ صرف 21 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ اگلے سال اس میں دو ہزار کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بھلا بتائیے اس مہنگائی کے دور میں اتنی کم تنخواہ میں کوئی اپنے گھر والوں کا گزارا کیسے چلا سکتا ہے اور وہ بھی صرف چار سال تک۔ اس کے بعد اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اگنی ویروں کا کہنا ہے کہ یہ نوکری تو پرائیویٹ نوکریوں سے بھی خراب ہے۔ اسی لیے اب فوج میں جانے کے خواہشمند نوجوانوں نے فوج میں بھرتی ہونے کی تیاری بند کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کہیں گارڈ کی نوکری کر لیں کم از کم وہ چار سال کی تو نہیں ہوگی۔
بہرحال اگنی ویر اسکیم انتہائی ناقص اور فوج میں تقریق پیدا کرنے والی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اسے فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت آئی تو وہ اس اسکیم کو منسوخ کر دیں گی۔ ہونا بھی یہی چاہیے۔ یہ حکومت ایک طرف مہنگائی میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے اور دوسری طرف عوام کو کوئی راحت بھی نہیں دے رہی ہے۔ حال ہی میں ٹیلی کام کمپنیوں نے اپنی شرحوں میں بھاری اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں حکومتی ادارے بی ایس این ایل آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کی بے روزگاری دور کی جائے لیکن حکومت ایسا کرنے کے بجائے اس میں اور اضافہ کر رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔