کسان تحریک کا ایک سال پورا، لیکن مودی حکومت نہ کسانوں کا درد سمجھ سکی نہ مطالبہ
کسان مظاہرین نے گزشتہ ایک سال میں گرمی کی شدت اور سردی کی ٹھٹھرن برداشت کر کے مودی حکومت کو بتا دیا ہے کہ یہ پریشانیاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
26 نومبر 2020 کو کسانوں نے دہلی کی سرحدوں پر جو تحریک شروع کی تھی، آج بھی جاری ہے۔ یعنی اس تحریک نے اپنا ایک سال پورا کر لیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ایک سال میں اگر کچھ بدلا ہے تو صرف یہ کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے تین متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان بھی وزیر اعظم نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’ہم کسان بھائیوں کو سمجھا نہیں پائے‘۔ سچ تو یہ ہے کہ کسان مرکزی حکومت اور وزیر اعظم مودی کو اپنی بات نہیں سمجھا پائے ۔ یا پھر وزیر اعظم اور ان کے وزراء نے کسانوں کی بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یا پھر وہ کسانوں کی بات سمجھ تو رہے ہیں، لیکن کسی وجہ سے ان کے مطالبات پورے نہیں کرنا چاہتے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو جب وزیر اعظم مودی تینوں زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کر رہے تھے تو ایم ایس پی سے متعلق بھی کوئی بیان دیتے اور مجوزہ الیکٹرسٹی ترمیمی بل کے تعلق سے بھی کچھ کہتے، کسان تحریک کے دوران ہزاروں کسانوں پر درج مقدمات کی واپسی کا اعلان بھی کرتے اور تحریک میں ہلاک ہونے والے کم و بیش 700 افراد کے معاوضہ کا بھی تذکرہ کرتے۔
کسان تحریک جب شروع ہوئی تھی تو کچھ مہینے سمجھنے سمجھانے کا دور چلا تھا۔ مرکزی وزرا اور کسان لیڈران کئی بار ایک ساتھ بیٹھے تھے اور اس بات کو بھلایا نہیں جا سکتا کہ ہر بار کسانوں نے زرعی قوانین واپس لینے کے ساتھ ساتھ ایم ایس پی پر قانون بنانے کی بھی بات رکھی تھی اور مجوزہ الیکٹرسٹی ترمیمی بل واپس لینے کا بھی مطالبہ شدت کے ساتھ کیا تھا۔ اُس وقت مرکزی وزیر زراعت اور دیگر مرکزی وزراء بضد تھے کہ زرعی قوانین کسی بھی حال میں واپس نہیں ہوں گے، ترمیم کے بارے میں غور و خوض کیا جا سکتا ہے۔ ایم ایس پی کے تعلق سے بھی ان کا یہی رویہ تھا۔ لیکن اب معاملہ برعکس ہے۔ کسانوں نے جب تحریک کا ایک سال پورا کر لیا ہے، تو اس صبر اور جدوجہد کا ثمرہ بھی انھیں حاصل ہوا۔ انھوں نے تکبر، گھمنڈ اور ضد کو شکست دے کر زرعی قوانین واپسی کی جنگ جیت لی ہے۔
ساتھ ہی کسان لیڈروں نے یہ اعلان کر کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزراء کو زوردار جھٹکا دے دیا ہے کہ تحریک صرف زرعی قوانین کو لے کر تھوڑے تھی جو ختم ہو جائے گی۔ یہ تو تب ختم ہو گی جب ایم ایس پی پر قانون بنے گا، مجوزہ الیکٹرسٹی ترمیمی بل واپس ہوگا۔ بلکہ اب تو مرکزی حکومت کے لیے مزید مشکل کھڑی یہ ہو گئی ہے کہ کسانوں کے مطالبات کی فہرست میں کچھ نئے مطالبات جڑ گئے ہیں۔ مثلاً تحریک کے دوران فوت ہوئے کسانوں کو معاوضہ دینا ہوگا، جن کسانوں پر مقدمات درج ہوئے ہیں وہ واپس لینے ہوں گے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اتر پردیش، پنجاب اور کچھ دیگر ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہونے والے ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس اعلان کا کوئی فائدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ کسان لیڈران تحریک کو ختم کرنا تو دور، دہلی کی سرحدوں سے کھسکنے کا بھی ارادہ نہیں رکھتے۔ سچ تو یہ ہے کہ وزیر اعظم پر دباؤ بنا کر زرعی قوانین واپس کرانے والے کسان اب مزید جوش میں نظر آ رہے ہیں۔ ان میں ایک نئی توانائی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ایم ایس پی پر قانون بنانے کے لیے اگر انھیں مزید ایک سال، یا پھر دو سال تحریک جاری رکھنی پڑے گی تو وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ویسے بھی کسان مظاہرین نے گزشتہ ایک سال میں گرمی کی شدت اور سردی کی ٹھٹھرن برداشت کر کے مودی حکومت کو بتا دیا ہے کہ یہ پریشانیاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ اگر مودی حکومت اس ایک سال میں کسانوں کے مسائل، ان کی تکلیف اور درد کو نہیں سمجھ سکی تو پھر اسے بے حسی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اس بے حسی کو ختم کرنے کا طریقہ بھی کسانوں کو معلوم ہو گیا ہے، اور اس کا کامیاب تجربہ بھی انھوں نے کر لیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Nov 2021, 6:40 AM