الوداع شرد یادو! جے پی تحریک سے نکلا طلبہ لیڈر جو سماجوادی سیاست کی علامت بن گیا

جب ملک میں 1974 میں طلبہ تحریک چل رہی تھی تو شرد یادو کی عمر 27 برس تھی۔ اس دوران جے پرکاش نارائن نے انہیں جبل پور لوک سبھا حلقہ سے ضمنی انتخاب لڑنے کے لیے بھیجا، جہاں انہوں نے کامیابی حاصل کی

<div class="paragraphs"><p>شرد یادو کی فائل تصویر / Getty Images</p></div>

شرد یادو کی فائل تصویر / Getty Images

user

قومی آواز بیورو

ممتاز سماجوادی لیڈر شرد یادو نہیں رہے۔ جمعرات 12 جنوری کو گروگرام کے ایک اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔ طلبہ کی سیاست سے قومی سیاست میں اپنی پہچان بنانے والے شرد یادو کے انتقال کی خبر ان کی بیٹی سبھاشنی شرد یادو نے ٹوئٹر کے ذریعے دی۔ سبھاشنی شرد یادو نے ٹوئٹ میں لکھا ’’پاپا نہیں رہے۔‘‘ شرد یادو کو دہلی سے متصل گروگرام کے فورٹس اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

شرد یادو نے سیاست میں ایک طویل اننگز کھیلی۔ سوشلسٹ تحریک سے نکل کر قومی سیاست میں قدم رکھنے والے شرد یادو نے ہندوستان کی ہندی پٹی پر اپنا پرچم لہرایا اور اس علاقہ کی سیاست کی علامت بن گئے۔ شرد یادو کی پیدائش یکم جولائی 1947 کو مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد میں ہوئی تھی، لیکن انہوں نے بہار اور اتر پردیش کو اپنا مقام کار بنایا۔

ایک کسان خاندان میں پیدا ہونے والے شرد یادو کو بچپن سے ہی تعلیم میں دلچسپی تھی۔ جب اعلیٰ تعلیم کی بات آئی تو شرد یادو نے انجینئرنگ کو اپنے پیشے کے طور پر منتخب کیا۔ شرد یادو نے ایم پی کے جبل پور کے مشہور انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا۔ اسی کالج میں نوجوان شرد نے سیاست میں قدم رکھا۔ اس وقت ملک میں طلبہ سیاست عروج پر تھی۔ شرد یادو اس کالج میں طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

تاہم سیاسی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے شرد یادو نے اپنی پڑھائی کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے بی ای سول میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ شرد یادو کی شادی 15 فروری 1989 کو ریکھا یادو سے ہوئی تھی۔ ان دونوں کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔


جب ملک میں 1974 میں طلبہ تحریک چل رہی تھی تو شرد یادو کی عمر 27 برس تھی۔ اس دوران جے پرکاش نارائن نے انہیں جبل پور لوک سبھا حلقہ سے ضمنی انتخاب لڑنے کے لیے بھیجا تھا۔ اس ضمنی انتخاب میں شرد یادو کو کامیابی ملی اور ان کے سیاسی کیریئر کا باقاعدہ آغاز یہیں سے ہوا۔ 1977 میں وہ ایک بار پھر اس سیٹ سے الیکشن جیت گئے۔

لوہیا کے خیالات سے متاثر تھے

شرد یادو سماجوادی رہنما ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے خیالات سے متاثر تھے۔ ان سے متاثر ہو کر شرد یادو نے کئی سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا۔ انہیں 1969-70، 1972 اور 1975 میں ایمرجنسی کے دوران میسا (ایم آئی ایس اے) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ شرد یادو ’او بی سی‘ سیاست کے بڑے لیڈر تھے۔ انہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

شرد ایم پی سے اتر پردیش آئے تھے

شرد یادو سیاست میں تیزی سے ابھر رہے تھے۔ 1978 میں وہ ’یووا لوک دل‘ کے صدر بنے۔ 1981 میں شرد یادو کی سیاست مدھیہ پردیش سے اتر پردیش منتقل ہو گئی۔

اس وقت تک شرد یادو سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے قریب آ چکے تھے۔ انہیں 1980 میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن جب سنجے گاندھی کی موت کے بعد 1981 میں امیٹھی میں ضمنی انتخاب ہوا تو اس میں شرد یادو راجیو گاندھی کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ اس الیکشن میں انہیں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔


یوپی سے بہار کی طرف ہوئے روانہ

شرد یادو نے 1989 میں جنتا دل کے ٹکٹ پر بدایوں لوک سبھا سیٹ سے الیکشن جیتا تھا۔ شرد یادو 1989-90 میں ٹیکسٹائل اور خوراک کے وزیر تھے۔ اس کے بعد شرد یادو نے بہار سے پارلیمانی سیاست کا سفر شروع کیا۔ شرد یادو نے بہار کی مدھے پورہ سیٹ سے الیکشن لڑا تھا اور اس سیٹ سے 1991، 1996، 1999 اور 2009 میں الیکشن جیتا۔ اس سیٹ سے انہیں 4 بار شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ شرد یادو کو لالو یادو نے پہلے 1998 میں اور پھر 2004 میں شکست دی۔ پھر پپو یادو نے انہیں 2014 میں شکست دی۔ 2019 میں جے ڈی یو کے دنیش یادو نے شرد یادو کو شکست دی۔

شرد یادو 1995 میں جنتا دل کے ورکنگ صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ 1997 میں جنتا دل کے قومی صدر بنے۔ وہ 13 اکتوبر 1999 سے 31 اگست 2001 تک سول ایوی ایشن کے وزیر رہے۔ اس کے بعد یکم ستمبر 2001 سے 30 جون 2002 تک شرد یادو کو وزارت محنت میں کابینہ وزیر بنائے گئے۔ 2004 میں وہ دوبارہ راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے اور وزارت داخلہ سمیت کئی کمیٹیوں کے رکن بنے۔

جب نتیش کے ساتھ جھگڑا ہوا

شرد یادو کو کبھی بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا رتھ سمجھا جاتا تھا لیکن نتیش کمار بہار کی سیاست میں آگے بڑھتے رہے اور کئی وجوہات کی وجہ سے شرد یادو نتیش کی بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ رفتار برقرار نہیں رکھ سکے۔ دونوں بزرگ سوشلسٹوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا اور ناراضگی پیدا ہو گئی۔ اس کے بعد شرد یادو نے 2018 میں جے ڈی یو سے بغاوت کی اور لوک تانترک جنتا دل کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی قائم کی۔

لیکن شرد یادو کی پارٹی کو زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ سوشلزم کا یہ ستارہ اس وقت پارلیمانی سیاست سے دور تھا۔ انہیں کچھ مہینے پہلے راہل گاندھی کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ وہ ملک کی سیاسی اور سماجی تحریکوں پر گہری نظر رکھتے تھے اور ان سے متعلق مسائل پر مسلسل اپنی رائے دیتے رہتے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔