ہندوستان کے الیکشن پر دنیا بھر کی نظریں، جمہوریت کے مستقبل پر تشویش
اس وقت ہندوستان اسرائیل کے قریب ترین دوستوں میں ہے مگر وہاں کے سب سے بڑے اخبار ہرتزل کی شہ سرخی ہے کہ ’’مودی کی قیادت میں ہندوستان ظالم اقتدار پرست ملک بن رہا ہے‘‘
کبھی عالمی برادری میں منارہ نور سمجھے جانے والے ہندوستان کو نہ جانے کس کی نظر بد لگ گئی ہے۔ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو نے ملک کے لئے جو نیک نامی کمائی تھی اور جس کی سبھی وزرائے اعظم نے اپنے اپنے طریقہ سے آبیاری کی تھی گزشتہ دس برسوں سے اس کی امیج بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ان دس برسوں میں تمام عالمی رینکنگ خواہ وہ حقوق انسانی کا معاملہ ہو جمہوریت کا معاملہ ہو، پریس کی آزادی کا معاملہ ہو، مذہبی آزادی کا معاملہ ہو یا پھر معاشی محاذ پر بیروزگاری گرانی رپے کی ناقدری ہو، خوشحالی کا پیمانہ ہو یا بھکمری کی انڈیکس ہو، ہر معیار پر ہندوستان نچلی سطح پر ہی آتا گیا ہے۔ حالانکہ گودی میڈیا وغیرہ مل کر مودی کی ایک زبردست امیج جسے انگریزی میں ’لارجر دین لائف‘ کہا جاتا ہے، عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہندوستان میں آج تک ان سے زیادہ مقبول کوئی لیڈر نہیں ہوا ہے اور ساری دنیا میں ان کا ڈنکا بج رہا ہے۔ کچھ نے تو یہاں تک دعویٰ ٹھونک دیا تھا کہ دنیا کا ہر لیڈر مودی سے صلاح و مشورہ کر کے ہی اگلا قدم اٹھاتا ہے۔ کسی نے کبھی مختلف زمروں میں ہندوستان کی موجودہ رینکنگ کو دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اصل میں یہ کام اپوزیشن کے ساتھ ہی میڈیا کا بھی ہے کہ عوام کے سامنے سچائی آتی رہے لیکن مودی کی قیادت میں جہاں تمام آئینی اداروں کو بے توقیر کر کے ان کو ’ہز ماسٹر وائس‘ بنا دیا گیا، وہیں میڈیا کو تو زر خرید غلام بنا دیا گیا ہے، جو حکومت کے بجائے اپوزیشن سے سوال پوچھتا ہے اور حکومت کا ترجمان بن کر اپوزیشن کو ہی کارنر کرتا ہے، اس کی ہی خامیاں نکالتا ہے، اس کے ہی گڑے مردے اکھاڑتا ہے۔ میڈیا اور اپنے پرچارکوں، اپنی ٹرول آرمی اور مذہبی جنونیوں کی اپنی فوج کے ذریعہ عوام کی ایسی ’برین واشنگ‘ کر دی گئی ہے کہ وہ بھیڑوں کا وہ ریوڑ بن گئے ہے جو گڈریے کے بجائے بھیڑیے کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگتی ہیں۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح 83 فیصد تک پہنچ گئی ہے، ضروریات زندگی کے ہر سامان کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، ملک پر دس برسوں میں 150 لاکھ کروڑ کا قرض بڑھ گیا ہے، جس کا سود ہی ہر سال 13 لاکھ کروڑ روپے بنتا ہے۔ دھنا سیٹھوں کا 16 لاکھ کروڑ روپیہ کا قرض ’ناقص قرض‘ کے مد میں ڈال دیا گیا ہے، جو عملی طور سے قرض معافی ہی ہے۔ کھربوں روپے کے سرکاری زمروں کے اداروں کو چنندہ لوگوں کے ہاتھوں کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا ہے۔ ان مسائل کو انتخابی موضوع نہ بننے دینے کے لئے آسان نسخہ ’مسلمان‘ بنا دیا گیا ہے۔ مودی حکومت دنیا کی اکلوتی حکومت ہے جو اپنے ہی ملک کے دو فرقوں کے درمیان نفرت غلط فہمی یہاں تک کہ تشدد کے بیج بو کر اقتدار میں بنی رہنا چاہتی ہے! کیا وہ خاندان کبھی خوشحال ہو سکتا ہے جہاں خاندان کا سربراہ ہی خاندان میں ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی پر عمل کر رہا ہو؟
لیکن دس برسوں کا گھٹاٹوپ اندھیرا اب جیسے چھٹنے والا ہے۔ عوام خاص کر نوجوانوں کو احساس ہو گیا ہے کہ ان کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے اور یہ پارلیمانی انتخاب ملک، اس کی شاندار تاریخ اور روایات نیز ملک کے مستقبل کو بچانے کا آخری موقع ہے۔ اس بار اگر چوک ہوئی تو ملک سے آئینی جمہوریت کا تو جنازہ نکل ہی جائے گا، یہ ملک بھی خانہ جنگی کا شکار ہو کر یوگوسلاویہ کے انجام کو پہنچ سکتا ہے۔ صرف ہندوستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان تاناشاہی کی جانب گامزن ہے۔ اس لئے اس بار چناوی فضا خاصی بدلی بدلی دکھائی دے رہی ہے، جس سے مودی سمیت بی جے پی کے سبھی بڑے لیڈروں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ ہاری ہوئی بازی کو جیتنے کے لئے مودی امت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلم دشمنی کا اپنا آزمودہ کارڈ کھیلنا شروع کیا اور ایسی ایسی باتیں کہیں جو پارٹی کا کوئی محلہ کی سطح کا لیڈر بھی کہتے ہوئے شرماتا لیکن ان کا یہ داؤ الٹا پڑ رہا ہے۔ عوام خاص کر اکثریتی طبقہ کے لوگوں میں مودی امت شاہ اور یوگی کی ایسی فرقہ وارانہ انتخابی مہم کو پسند نہیں کیا گیا اور ایک عالمی ریکارڈ بن گیا، جب مودی کی راجستھان میں ایک نہایت ہی زہریلی تقریر کے خلاف محض 24 گھنٹوں میں 17400 شکایتیں الیکشن کمیشن پہنچ گئیں۔ اس کے ساتھ دہلی میں مختلف دفعات کے تحت ان پر مقدمہ درج کرنے کی بھی درخواست دی گئی لیکن پولیس نے یہ ایف آئی آر درج نہیں کی تو معاملہ عدالت پہنچ گیا۔ سنوائی کرنے والا جج تاریخ والے دن چھٹی پر چلا گیا لیکن کبھی نہ کبھی تو سنوائی ہوگی ہی۔ یہ دفعات اتنی سنگین ہیں کہ اگر انصاف ہو تو مودی جی نہ صرف جیل چلے جائیں بلکہ ان کا سیاسی کیریئر بھی اسی طرح ختم ہو سکتا ہے جیسے آنجہانی بال ٹھاکرے کا ہوا تھا۔ لیکن تب آئینی ادارے مضبوط تھے اور آزادانہ فیصلے کرتے تھے اب حالت یہ ہے کہ جن ہزاروں شکایتوں کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ الیکشن کمیشن مودی کو وقتی طور سے انتخابی مہم سے الگ کر دیتا جیسا وہ دوسرے لیڈروں کے ساتھ کرتا ہے اور خود ایف آئی آر درج کرواتا مگر بعد از خرابی بسیار کمیشن نے بی جے پی کے قومی صدر کو نوٹس جاری کر دیا یعنی ’مارو گھٹنا، پھوٹے آنکھُ خطا کی مودی امت شاہ یوگی نے نوٹس دی جا رہی ہے نڈا جی کو، ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہئے!
ہندوستان میں جمہوریت کے مستقبل کو لے کر عالمی برادری تشویش میں مبتلا ہے، اس کا اندازہ دنیا کے ممتاز اور بڑے اخباروں کی شہ سرخیاں سے کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہندوستان اسرائیل کے قریب ترین دوستوں میں ہے مگر وہاں کے سب سے بڑے اخبار ہرتزل کی شہ سرخی ہے کہ ’’مودی کی قیادت میں ہندوستان ظالم اقتدار پرست ملک بن رہا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی بڑے اخباروں نے بھی ایسی ہی سرخیاں لگائی ہیں۔ ممتاز صحافی پنکج پچوری نے ان تمام سرخیوں کو یکجا کر کے ایک لسٹ جاری کی ہے ۔ جاپانی اخبار نپان کی سرخی ہے ’’ہندوستانی جمہوریت خطرہ میں بنا روک ٹوک تاناشاہی کی جانب بڑھتے رہنے کا خطرہ۔‘‘
برطانی اخبار انڈیپنڈنٹ نے لکھا، ’’مودی کی پارٹی اپوزیشن کو ختم کرنے کے لئے اقتدار پرستانہ پالیسی اختیار کر رہی ہے۔‘‘ یہ لکھا ہے جبکہ فرانسیسی اخبار لی مونڈ نے لکھا ہے کہ ’’ہندوستان انتخابی تاناشاہی کی جانب بڑھ رہا ہے‘‘۔ ایسے ہی اور بھی کئی اخباروں نے تبصرہ لکھے ہیں اور شہ سرخیاں لگائی ہیں۔
عالمی پلیٹ فارموں سے متعدد ہستیوں نےبھی آوازیں اٹھانا شروع کر دی ہیں۔ عالمی رینکنگ ایجنسیوں نے بھی رینکنگ گرائی ہے مگر ہندوستان میں میڈیا نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے جہاں صرف مودی مودی ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ تو انکو ملنے والے کھربوں روپے کے اشتہار ہیں، جو در اصل حکومت اور بی جے پی کی تشہیر نہیں بلکہ عوام کی ذہن شوئی (برین واشنگ) کا حصّہ ہیں اور اس میں بہت حد تک وہ کامیاب بھی ہیں لیکن بناوٹ کے اصولوں سے سچائی تو چھپ نہیں سکتی - ساری دنیا اس تشویش میں مبتلا ہے کہ چین روس شمالی کوریا اور ترکیہ کے بعد اب کہیں ہندوستان بھی جمہوریت کے بجائے ’منتخب تاناشاہی‘ کے چنگل میں نہ پھنس جائے۔ دھیان رہے کہ مذکورہ ملکوں میں بھی انتخاب ہوتے ہیں مگر وہ کیسے ہوتے ہیں یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ہندوستان میں جاری عام انتخابات میں صورت اندور اور بھی کئی جگہ جس طرح بی جے پی کے امیدواروں کو جتایا گیا اور جس طرح مسلم محلوں میں پولنگ کے دن پولیس ننگا ناچ کر کے مسلم ووٹروں خاص کر خواتین کو خوفزدہ کرتی ہے وہ ہمارے انتخابی نظام پر بدنما داغ ہیں۔ اپوزیشن کے امیدواروں اور کارکنوں پر ذرا ذرا سی بات پر مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے اور بی جے پی کے لیڈروں امیدواروں اور کارکنوں کی زہر افشانی پر ایف آئی آر کوششوں کے بعد بھی درج نہیں ہوتی۔ ایسے ماحول میں بھی اب تک کی ہوئی پولنگ کے بعد جو امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں ان سے امید بندھتی ہے کہ عوام نے اپنی آئینی جمہوریت کے تحفظ کا فیصلہ کر لیا ہے، یہ ایک خوش آئند اور امید افزا صورت حال ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔