عالمی موسمیاتی سربراہی اجلاس: عرب ممالک پر منافقت کا الزام

ابوظہبی نے COP28 کو تیل اور گیس کے سودوں کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تو ریاض تیل کی مانگ کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ایکس</p></div>

تصویر بشکریہ ایکس

user

مدیحہ فصیح

اقوام متحدہ کا عالمی موسمیاتی اجلاس آغاز سے قبل ہی اسکینڈل کا شکار ہو گیا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق ایک طرف متحدہ عرب امارات نے منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے COP28 اجلاس کو تیل اور گیس کے سودوں کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تو دوسری جانب سعودی عرب عالمی سطح پر تیل کی مانگ کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے منصوبوں پر خفیہ طور پر کام کر رہا ہے۔ یہ سربراہی اجلاس 30 نومبر سے 12 دسمبر تک دبئی میں منعقد ہوگا ۔ دو ہفتے طویل COP28 سربراہی اجلاس میں تقریباً 200 ممالک کے رہنما اور وزراء کی شرکت متوقع ہے - اس کے ساتھ اندازاً 70,000 مندوبین بھی شریک ہوں گے۔

ایک ایسے وقت میں جب عالمی درجہ حرارت ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہا ہے اور موسم کے شدید واقعات دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں COP28 کو موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے کارروائی کو تیز کرنے کا ایک اہم موقع سمجھا جاتا ہے ۔لیکن اس اجلاس سے چند دن قبل غیر منافع بخش تحقیقاتی صحافت کی تنظیم ،سینٹر فار کلائمیٹ رپورٹنگ، جس نے بی بی سی کے ساتھ مل کر کام کیا ہے، نے حاصل شدہ دستاویزات کی بنیاد پر یہ خلاصہ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے COP28 کے میزبان کے طور پر اپنے کردار کو تیل اور گیس کے سودوں کے لیے غیر ملکی سرکاری حکام کی لابنگ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔


سینٹر فار کلائمیٹ رپورٹنگ کے مطابق افشا ہونے والے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ سلطان احمد الجابر، جو COP28 کے نامزد صدر اور ریاستی تیل کمپنی ADNOC (ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی) کے چیف ایگزیکٹو ہیں، نے آئندہ موسمی سربراہی اجلاس کے دوران 15 ممالک کے ساتھ فوسل فیول کے سودوں پر بات چیت کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ سلطان احمد الجابر ابوظہبی کی سرکاری قابل تجدید توانائی فرم ’مصدر‘ کے بانی سی ای او بھی ہیں۔

سینٹر فار کلائمیٹ رپورٹنگ، جسے گرین پیس اور راکفیلر فلانتھروپی ایڈوائزرز سے فنڈنگ ملتی ہے،نے یہ دستاویزات شائع کی ہیں اور کہا ہے کہ انہوں نے ایک نامعلوم مخبرکے ذریعے دستاویزات کی درستگی کی تصدیق کر لی ہے۔ دوسری جانب موسمیاتی اجلاس کے ترجمان نے کہا کہ بی بی سی کے مضمون میں جن دستاویزات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ غلط ہیں اور انہیں COP28 میٹنگز میں استعمال نہیں کیا گیا۔ بی بی سی کا رپورٹنگ میں غیر تصدیق شدہ دستاویزات کا استعمال انتہائی مایوس کن ہے۔ ADNOC کے ترجمان دستیاب نہیں تھے جبکہ مصدر نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (UNFCCC) نے بھی لیک ہونے والی دستاویزات پر فوری تبصرہ نہیں کیا۔ UNFCCC فریقین کی کانفرنس (COP) کا فیصلہ ساز ادارہ ہے۔


افشاں دستاویزات میں مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات کی COP28 ٹیم کی جانب سے تقریباً 30 غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ سربراہی اجلاس سے قبل میٹنگز کے لیے تیار کردہ بریفنگ نوٹس دکھائے گئے ہیں۔ سلطان احمد الجابر کے لیے مجوزہ بات چیت کے کچھ نکات میں متحدہ عرب امارات کی برازیل کی ’ٹیکس ہیون ‘کی فہرست سے نکلنے کی امید شامل تھی تاکہ مصدر سے نئی سرمایہ کاری میں مدد ملے؛ ساتھ ہی چین کے ساتھ مائع قدرتی گیس (LNG)کے منصوبوں پر ممکنہ معاہدے پر غور کرنے کی خواہش اور ابوظہبی کا موقف کہ ADNOC مصر کو پیٹرو کیمیکل کی فراہمی میں مدد کے لیے تیار ہے۔

دوسری جانب انسانی حقوق گروپ ’ایمنسٹی انٹرنیشنل ‘نے COP28 سربراہی اجلاس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے سلطان احمد الجابر سے ADNOC میں اپنے کردار سے دستبردار ہونے کا مطالبہ دہرایا ہے۔ تنظیم کے آب و ہوا کے مشیر این ہیریسن نے اپنے ردعمل میں کہا کہ دستاویزات میں سلطان احمد الجابر کو COP28 میٹنگز میں کاروباری مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے بریفنگ دی گئی تھی۔ یہ ان خدشات کو ہوا دیتے ہیں کہ فوسل فیول لابی نے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے COP28 پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا ہے جس سے پوری انسانیت کو خطرہ لاحق ہے۔


واضح رہے کہ سال کے آغاز میں COP28 کے باس کے طور پر تقرری کی تصدیق کے بعد سلطان احمد الجابر نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات ذمہ داری کے ساتھ COP28 کیجانب بڑھ رہا ہے۔ عملیت پسندی اور تعمیری مکالمے کو ہماری ترقی میں سرفہرست ہونا چاہیے۔ ان کے دفتر کے مطابق انہوں نے 10 سے زیادہ COP سربراہی اجلاسوں میں شرکت کی ہے اور اس کردار میں انہیں حکومت، موسمیاتی پالیسی، اور قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں میں دو دہائیوں کاتجربہ ہے۔

ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (ADNOC) ، جو 2045 تک نیٹ زیروکے عزائم کو فروغ دینے والی کمپنیوں میں سرفہرست ہے، نے اس سال جنوری میں کہا تھا کہ وہ 2030 تک ’کم کاربن حل‘ میں سرمایہ کاری کے لیے 15 ارب ڈالر مختص کرے گی، جس میں کلین پاور ، کاربن کیپچر اور اسٹوریج، اور بجلی کے منصوبے شامل ہیں۔ دریں اثنا، مصدر دنیا بھر کے 40 سے زیادہ ممالک میں فعل ہے اور اس نے 30 ارب ڈالر سے زیادہ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے یا سرمایہ کاری کرنے کا عہد کیا ہے۔


دوسری جانب سعودی عرب عالمی سطح پر تیل کی مانگ کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے منصوبوں پر خفیہ طور پر کام کر رہا ہے۔ سینٹر فار کلائمیٹ رپورٹنگ اور برطانوی ٹی وی چینل 4 نیوز نےیہ انکشاف COP28سربراہی اجلاس سے چند روز قبل کیا ہے۔ خفیہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیسے جیسےامیر ممالک سبز توانائی (گرین اینرجی) کی طرف منتقل ہو رہے ہیں اور مغربی ایشیا کے فوسل فیول کے خزانے کو ترک کر رہے ہیں، سعودی عرب مبینہ طور پر غریب ممالک، خاص طور پر افریقہ میں تیل کی مانگ کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔

ریاض مبینہ طور پر اپنے نام نہاد آئل ڈیمانڈ سسٹین ایبلٹی پروگرام (ODSP) کے تحت افریقہ اور دیگر جگہوں پر فوسل فیول سے چلنے والی کاروں، بسوں اور طیاروں کے استعمال کو آگے بڑھانے کی خواہش رکھتا ہے۔ چینل 4 نیوز کے ایک خفیہ رپورٹر نے بتایا کہ سعودی حکام کے مطابق ODSP کا سب سے بڑا مقصد مصنوعی طور پر کچھ اہم مارکیٹوں میں مانگ کو بڑھانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سعودی عرب سپر سونک ہوائی سفر کی ترقی کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں روایتی طیاروں سے تین گنا زیادہ ایندھن استعمال کیا جائے گا۔ کار سازوں کے ساتھ مل کر سستی کار بنانے کے لیے سستے انجن تیار کرنے کا بھی ارادہ ہے تاکہ فوسل فیول غریبوں کے لیے زیادہ منافع بخش ہو جائے۔


سعودی عرب کی اس مبینہ حکمت عملی پر تاثر دیتے ہوئے تھنک ٹینک پاور شفٹ افریقہ کے ڈائریکٹر محمد عدو نے ’گارجین‘ کوبتایا کہ سعودی حکومت ایک منشیات فروش کی طرح ہے جو افریقہ کو نقصان دہ مصنوعات کی جانب مائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب باقی دنیا آلودگی پھیلانے والے ایندھن سے چھٹکارا چاہتی ہے ، سعودی عرب مزید صارفین کے لیے بے چین ہے اور اپنی نگاہیں افریقہ کی طرف موڑ رہا ہے۔

اس کے برعکس سعودی حکومت ODSP کو غریب ممالک میں توانائی کی نقل و حمل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنےکی ایک اسکیم کے طور پر فروخت کرتی ہے، مثال کے طور پر پکانے کے لیے لکڑی جلانے کے بدلے گیس کے چولہے فراہم کر نا۔ ایک عربی سائٹ کے مطابق، اس کا مقصد یہ ہے کہ ہائیڈرو کاربن کی اقتصادی اور ماحولیاتی کارکردگی کو بڑھاتے ہوئے اس کی مانگ کو توانائی کے مسابقتی ذریعہ کے طور پر برقرار رکھاجائے ۔ ساتھ ہی سعودی عرب کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پیرس معاہدے کے آب و ہوا کے اہداف کے لیے پرعزم ہے تاکہ عالمی حرارت کو 2 ڈگری سیلسیس کم تک محدود رکھا جائے جبکہ زیادہ سے زیادہ1.5ڈگری اضافے کا ہدف رکھا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔