’جے ہند کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے‘، مجاہدہ آزادی اور اردو شاعری... معین شاداب
بیسویں صدی کے آغاز میں ہی تحریک آزادی کے اثرات نمایاں تھے۔ ترقی پسند شعرا نے تحریک آزادی کو مہمیز کیا، نہ صرف نظم گو شعرا نے بلکہ غزل گویوں نے بھی اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
اردو شعر و ادب میں وطنیت کا تصور ابتدا سے ہی ملتا ہے۔ اردو کا ادبی سرمایہ حب الوطنی، وطن پرستی اور ملک دوستی کے جذبے سے مالامال ہے۔ امیر خسرو نے اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر کا اظہار اپنی شاعری کے ذریعے بھی کیا ہے۔ ابتدائی شعرا میں قلی قطب شاہ، نصرتی، ولی سمیت کم و بیش تمام شاعروں نے وطن کے نغمے گائے ہیں۔ تحریک آزادی کے دوران یہ حب الوطنی غلامی کے خلاف صدائے احتجاج اور نعرہ انقلاب میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ میر، مصحفی، سودا، یقین سے لے کر غالب تک جن شعرا نے غدر کے دوران یا اس سے قبل وطن کے دکھ کو دیکھا تو ان کے قلم نے شہر آشوب لکھ کر وطن سے محبت کا اظہار کیا۔ اجڑتی دہلی کا نوحہ اس وقت کے متعدد قلم کاروں نے لکھا۔ بغاوت سے قبل فرنگیوں کی مخالفت کا اثر اس وقت کے شعرا پر خوب نظر آتا ہے اور فضاؤں میں قومی اتحاد کے نغمے گونج اٹھتے ہیں۔ انقلاب کے دوران جو شعرا موجود تھے ان میں سے بیشتر نے اس وقت کے مصائب کو خود بھی جھیلا ہے۔ محمد علی جوہر، مولانا آزاد، ظفر علی خان، حسرت موہانی جیسے ادبا اور شعرا تو باقاعدہ مجاہدے میں شامل رہے۔ ان قلم کاروں نے میدان فکر و عمل دونوں میں اپنی خدمات کو تسلیم کرایا۔ حالی، شبلی اور آزاد نے اپنی نظموں سے ایک ایسی جوت جگائی کہ ذہن و دل روشن اور عزائم منور ہو گئے۔ اقبال کے جذبۂ حب الوطنی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ تو وقت کے ماتھے پر ہمیشہ جھلملانے والا جھومر ہے ہی، ان کی اور بھی کئی نظمیں قابل ذکر ہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ہی تحریک آزادی کے اثرات نمایاں تھے۔ ترقی پسند شعرا نے تحریک آزادی کو مہمیز کیا۔ مخدوم محی الدین، مجاز لکھنوی، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، اخترالایمان، سردار جعفری، کیفی اعظمی، نشور واحدی، ساحر لدھیانوی، سلام مچھلی شہری، معین احسن جذبی، ن. م. راشد، میراں جی وغیرہ نے جذبہ حریت اور آزادی کی امنگ کو اپنی شاعری میں ابھارتے ہوئے صدائے احتجاج اور نعرہ انقلاب بلند کیا۔ نہ صرف نظم گو شعرا نے بلکہ غزل گویوں نے بھی اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یعنی اگر ایک طرف جوش جیسے انقلابی شاعر ولولہ انگیز نظمیں کہہ رہے تھے تو دوسری طرف مجروح جیسے غزل گو بھی اپنی ایمائیت اور ایجاز بیانی کے ساتھ آواز میں آواز ملا رہے تھے۔ امید کی کرن کے ساتھ اتحاد کا پیغام عام کرتا مجروح کا یہ شعر سدا بہار ہو گیا:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
سید سلیمان ندوی، وحیدالدین سلیم، نیاز فتح پوری، اقبال سہیل، تلوک چند محروم، افسر میرٹھی، جگر مراد آبادی، حفیظ جالندھری، آنند نرائن ملّا، روش صدیقی، افسرمیرٹھی نے بھی تحریک آزادی کے زیر اثر پر تاثیر نظمیں کہیں اور آزادی کے متوالوں کی حوصلہ افزائی کی۔
کاکوری کیس کے ہیرو رام پرشاد بسمل اکثر ایک غزل پڑھا کرتے تھے۔ یہ غزل تحریک آزادی کے کسی منشور سے کم نہیں ہے۔ جب جنگ آزادی میں شاعری کے رول کی بات آئے گی، ان شعروں کا حوالہ ضرور دیا جائے گا:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہید ملک و ملت میں ترے اوپر نثار
لے تری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
بہادر شاہ شاہ ظفر کے زوال، ایسٹ انڈیا کمپنی کی در اندازی، انگریزوں کے تسلط، پہلی تحریک آزادی، غدر اور پھر اصل جنگ آزادی سے لے کر غلامی کی زنجیروں سے آزادی تک کی مختلف کیفیتوں کو اردو شاعروں نے اپنے کلام کے ذریعے پیش کیا۔ شعرا نے مجاہدین کا حوصلہ بڑھایا، لوگوں میں جوش بھرا، ملک کی فکری قیادت کی، تحریک کو وژن دیا، دشمنوں کو للکارا، اتفاق و اتحاد کا پیغام عام کیا۔ تحریک آزادی کی حمایت میں کی گئی شاعری کی پاداش میں بہت سے شعرا پر پابندیاں لگائی گئیں اور ان کی نظمیں ضبط کر لی گئیں۔ شاعروں نے وطن کی محبت میں صعوبتیں اٹھائیں، جیل میں ڈالے گئے۔ بہت سے قلم کار بہ نفس نفیس جنگ آزادی میں شامل ہوئے۔
ذیل میں مختلف شعرا کے کچھ اشعار درج کئے جاتے ہیں، جنھیں پڑھ کر آزادی کی تحریک میں شعرا کے کردار کی تفہیم کی جا سکتی ہے۔ ان اشعار میں حالات کا نوحہ بھی ہے اور زمانے کا آشوب بھی۔ فکری مجاہدہ بھی ہے اور تحریک کا لائحہ عمل بھی۔ ان میں دیوار میں در کرنے کا حوصلہ اور جذبۂ شہادت کا اظہار ملتا ہے۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار یہ اشعار قائدین میں اعتماد ظاہر کرتے ہیں۔ یہ شعر دشمنوں کو بھی للکارتے اور اپنوں کی غیرت بھی جگاتے ہیں۔ ان میں احتجاج ہے، جدوجہد ہے، جوش ہے، حوصلہ ہے، شعور ہے، جذبے ہیں، احساسات ہیں۔ اور ایسے کلام سے اردو شاعری بھری پڑی ہے:
غازیوں میں بو رہے گی جب تلک ایمان کی
تخت لندن تک چلے گی تیغ ہندستان کی
................................................ (بہادرشاہ ظفر)
وطن کے عشق کا بت بے نقاب نکلا ہے
نئے افق پہ نیا آفتاب نکلا ہے
................................................ (چکبست)
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
................................................ (چکبست)
یاد وطن نہ آئے ہمیں کیوں وطن سے دور
جاتی نہیں ہے بوئے چمن کیا چمن سے دور
................................................ (مولانا محمد علی جوہر)
گاندھی نے آج جنگ کا اعلان کر دیا
باطل کو حق سے دست و گریبان کر دیا
................................................ (ظفر علی خاں)
اڑ رہا ہے ظلم و استبداد کے چہرے سے رنگ
چھٹ رہا ہے وقت کی تلوار سے ماتھے کا رنگ
................................................ (علی سردارجعفری)
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
................................................ (جوش ملیح آبادی)
یہاں سے ایک طوفاں اٹھ رہا ہے
یہاں سے ایک آندھی چل رہی ہے
................................................ (مجازلکھنوی)
تنگ آ کے غلامی سے انساں زنداں ہی کو ڈھانے والا ہے
دیوار سے طوفاں ٹکرا کر اک راہ بنانے والا ہے
................................................ (شمیم کرہانی)
حصار باندھے ہوئے تیوریاں چڑھائے ہوئے
کھڑے ہیں ہند کے سردار سر اٹھائے ہوئے
................................................ (کیفی اعظمی)
مٹا دو مل کے مٹا دو نشاں غلامی کا
زمین چھوڑ چکا کارواں غلامی کا
................................................ (کیفی اعظمی)
جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگرؔ
جب وقت شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں
................................................ (جگرمرادآبادی)
لیلائے آب و رنگ کا ڈیرہ قریب ہے
تارے لرز رہے ہیں سویرا قریب ہے
................................................ (جوش ملیح آبادی)
صبا نے پھر در زنداں پہ آ کے دستک دی
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے
................................................ (فیض احمد فیض)
جے ہند کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے
جے ہند کی عالم میں صدا گونج رہی ہے
یہ ولولہ، یہ جوش، یہ طوفان مبارک
ہرآن مبارک
................................................ (تلوک چند محروم)
جو آگ لگی ہے دل میں اسے کچھ اور ابھی بھڑکانا ہے
اس آگ سے ہم کو دنیا کی ہر آگ بجھانا ہے ساتھی
بڑھتی ہوئی فوجوں کا نغمے کیوں ساتھ نہیں دے پاتے ہیں
ہاں ساز کی لے کو اور ابھی کچھ اور بڑھانا ہے ساتھی
................................................ (علی سردار جعفری)
لب پہ آہ سرد بھی ہے یا نہیں
دل میں قومی درد بھی ہے یا نہی
................................................ (آزاد انصاری)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔