مجاہد آزادی زلیخا بیگم، شریک حیات مولانا ابوالکلام آزاد، آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ

زلیخا بیگم نے جلسے جلوس، اسٹیج یا اخبارات کی سرخیاں بنے بغیر تحریک آزادی میں بھرپور رول انجام دیا اور اپنے شوہر کے قائدانہ کردار کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا، انہیں خندہ پیشانی سے قبول کیا

مولانا ابوالکلام آزاد / سوشل میڈیا
مولانا ابوالکلام آزاد / سوشل میڈیا
user

شاہد صدیقی علیگ

تاریخ ہند ایسی خواتین کے عزم واستقلال، پامردی اور دلیری سے درخشندہ اور تابناک ہے جنہوں نے جیالے مجاہدین کے دوش بدوش چل کر نہ صرف اپنے عہد کی تقدیر پلٹ دی بلکہ ایسے نقوش چھوڑے ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس امر سے کوئی منکر نہیں ہوسکتا ہے کہ تحریک آزادی میں جان کی بازی لگانے والے انقلابیوں کو اگر وفا شعار خواتین کا ساتھ نہ ملا ہوتا تووہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف سیسہ پلائی کی دیوار بن کر کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔ ایسی ہی صف اول کی جرأت مند خواتین میں زلیخا بیگم کا نام بھی شامل ہے۔ جنہوں نے جلسے جلوس، اسٹیج یا اخبارات کی سرخیاں بنے بغیر تحریک آزادی میں بھرپور رول انجام دیا اور اپنے شوہر کے قائدانہ کردار کی وجہ سے انہیں جن معاشی مسائل، گھریلو پریشانیوں، ذہنی الجھنوں اور تنہائیوں کا سامنا کرنا پڑا اسے بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا۔

زلیخا بیگم کی حوصلہ مندی اور ثابت قدمی کا ثبوت 1942 میں مہاتما گاندھی کے نام لکھا خط کافی ہے ”میرے شوہر مولانا ابوالکلام آزاد کے مقدمے کا فیصلہ آج سنا دیا گیا، اْنھیں صرف ایک سال سخت کی سزا دی گئی، یہ نہایت تعجب انگیز طور پر اْس سے بدرجہا کم ہے جس کے سننے کے لیے ہم تیار تھے، اگر سزا اور قید قومی خدمت کا معاوضہ ہے تو آپ تسلیم کریں گے کہ اِس معاملے میں بھی ان کے ساتھ ناانصافی برتی گئی۔ یہ تو کم سے کم بھی نہیں ہے جس کے وہ مستحق تھے۔“

بیگم زلیخا چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ ان کے والد کا نام آفتاب الدین تھا، جو نہایت نیک اور فرشتہ صفت شخصیت کے مالک تھے۔ جن کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے جا ملتا ہے۔ آفتاب الدین مولانا آزاد کے والد گرامی مولانا خیر الدین صاحب کے حلقہ مریدین میں شامل تھے۔ پیر مرشد نے اپنے مرید خاص کی لخت جگر زلیخا کا اپنی شریک حیات کے طور پر انتخاب کیا، چنانچہ 1907 میں ان کا نکاح مولانا محی الدین آزاد سے کر دیا گیا۔


مولانا آزاد اپنی ذات میں انجمن تھے، جنہوں نے ملک و قوم کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ جن کا ایک پیر ریل میں تو دوسرا جیل میں رہتا تھا۔ بموجب نظم و ضبط اور ایثار و انکسار کی پیکر زلیخا بیگم نے ہجر و تنہائی کی لمبی گھڑیاں گزاریں لیکن کبھی شکوہ وشکایت کا ایک لفظ اپنی زبان پر نہ لائیں اور مہر بہ لب ہو کر شوہر کا سینہ بہ سینہ ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ جدائی اور مالی مشکلات کے سبب زلیخا بیگم ٹیبی کی شکار بھی ہو گئیں لیکن اپنی مہلک بیماری کو اپنے شوہر کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔

شب روز کا سیل رواں چلتا رہا ہے، جب مولانا آزاد 3 اگست 1942 کو بھارت چھوڑو تحریک میں حصہ لینے کے لیے کلکتہ سے بمبئی کے لیے روانہ ہوئے تو بے مثل ادیب نے اس الوداعی گھڑی کا اظہار اپنے مکتوب میں اس طرح کیا ہے کہ زلیخا بیگم جذبات و احساسات اور صبر و تحمل کا مجسمہ نظر آتی ہیں۔

”زلیخا حسب معمول دروازے تک خدا حافظ کہنے آئیں۔ میں نے کہا اگر کوئی نیا واقعہ پیش نہیں آیا تو 13 اگست تک واپسی کا فیصلہ ہے اس نے خدا حافظ کے سوا کچھ نہیں کہا لیکن اگر کہنا بھی چاہتی تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی جو اس کے چہرے کا خاموش اضطراب کہہ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں مگر چہرہ اشکبار تھا۔ گزشتہ پچیس برس کے اندر کتنے ہی سفر پیش آئے اور کتنی ہی گرفتاریاں ہوئیں لیکن میں نے اس درجہ افسردہ اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کیا یہ جذبات کی وقتی کمزوری تھی جو اس کی طبعیت پر غالب آ گئی تھی؟ میں نے اس وقت ایسا ہی خیال کیا تھا لیکن اب سوچتا ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ اسے صورتحال کا ایک معمولی احساس ہونے لگا تھا شاید وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کی زندگی میں یہ ہماری آخری ملاقات ہے وہ خدا حافظ اس لیے نہیں کہہ رہی تھی کہ میں سفر کر رہا تھا، وہ اس لیے کہہ رہی تھی کہ خود سفر کرنے والی تھی۔“


چھبیس سال کی رفاقت کے بعد دوران اسیری موزخہ 9 اپریل 1943 زلیخا بیگم جنگ آزادی کے سپہ سالار مولانا آزاد کو داغ مفارقت دے گئی۔ آزاد کے خلوت و جلوت کے رفیق عبدالرزاق ملیح آبادی زلیخا بیگم کے آخری لمحات کے بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ ”9 اپریل 1943 کی صبح نو دس بجے مجھے فون آیا کہ بیگم صاحبہ تمہیں یاد کرتی ہیں۔ میں فوراً پہنچا۔ عرصہ دراز سے ایک مکان میں رہنے کے باوجود کبھی اچٹتی نگاہ بھی اس پاکباز چہرے پر نہ پڑی۔ کمرے میں جا کر دیکھا تو واقعی وقت آخر تھا۔‘‘

’’میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں ’آپ میرے بھائی ہیں۔ آپ کی ہمیشہ شکر گزار رہی ہوں۔ مولانا کا دیدار ممکن نہیں۔ ان سے کہنا تمہارے نام پر مر رہی ہوں مگر میرے چلے جانے کا غم نہ کرنا۔‘ ہاتھ بری طرح لرز رہا تھا کہنے لگیں ’مولانا کے لیے تو میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ ہچکی آئی اور وہاں کچھ نہ تھا۔“

لیکن ستم بالائے ستم زلیخا جیسی محب الوطن خاتون کی جفا کشی اور قربانی تاریخ ہند کا حصّہ نہیں بن سکی۔ جس نے تحریک آزادی کے ہر موڑ پر اپنے شوہر کی حوصلہ افزائی کی اور حصول وارستگی کی خاطر ذاتی آرام و آسائش کو بھی قربان کر دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔