فالی سیم نریمن: وہ ہستی جس کی وزیر اعظم سے لے کر چپراسی تک عزت کرتے تھے

ماہر قانون فالی سیم نریمن علم کا ایک ایسا چشمہ تھے کہ جو ان سے جڑتا مالا مال ہو جاتا۔

<div class="paragraphs"><p>فالی ایس نریمن کی ایک فائل تصویر، آئی اے این ایس</p></div>

فالی ایس نریمن کی ایک فائل تصویر، آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

فالی سیم نریمن، جن کا گزشتہ 21 فروری کو 95 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا، ان کا ایک قصہ مجھے یاد آتا ہے۔ انھوں نے مجھ سے ہیملیٹ کا ایک خاص اقتباس منگوایا جس میں ڈنمارک کے شہزادے پولونٹوس سے کہتے ہیں کہ اپنے ڈرامے کے تمام کرداروں کا بہت اچھا خیال رکھو، کیونکہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور احترام کے ساتھ برتاؤ کرنا زیادہ اہم ہے۔ جب تک وہ زندہ ہیں، بجائے اس کے کہ ان کے بارے میں ان کی پیٹھ پیچھے منفی باتیں کہی جائیں۔

آج میں بھی بحیثیت ایک معمولی شخص، ان کی طویل زندگی، شاندار کامیابیوں اور ان کے ساتھ ہوئی اپنی بات چیت کا نذرانہ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ انھیں ہندوستانی قانونی دنیا کے بھیشم پیتم کہہ کر پکارنا ایک سادہ سا موازنہ ہوگا، لیکن یقیناً یہی وہ مقام تھا جو وہ رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ انھوں نے ساری زندگی سیکولر ہندوستان میں گزاری اور پھلے پھولے اور اگر خدا نے چاہا تو وہ سیکولر ہندوستان میں ہی مرنا پسند کریں گے۔ ہندوستان کے موجودہ حالات کو لے کر وہ کافی پریشان تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان ایک تھیوکریٹک ریاست بنتا جا رہا ہے۔


فالی نریمن نے ہندوستانی قانونی دنیا کے اخلاقی مرکز پر قبضہ کر رکھا تھا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایمرجنسی نافذ ہوتے ہی انھوں نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جو ہمیشہ ’صحیح‘ کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ انھوں نے اپنے اخلاقی نقطہ نظر سے کبھی کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ مثلاً جب گجرات میں عیسائیوں پر حملے ہوئے، اس وقت وہ نرمدا کیس میں ریاستی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے اور ان حملوں کے پیش نظر نریمن نے احتجاجاً بریفنگ سے منع کر دیا۔

بلاشبہ وہ ایک علمی معیار کے وکیل تھے، جنھیں قانونی دنیا کے تمام لوگ قابل احترام سمجھتے تھے۔ ان کے دوستوں اور ساتھیوں میں دنیا بھر کے قابل وکلا اور دانشور طبقہ شامل تھا۔ وہ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے جس کی چھوٹے سے طبقے کے لوگ اور ملک کا وزیر اعظم سبھی عزت کرتے تھے۔ ان کے دلائل ہمیشہ بہت احتیاط سے تیار کیے جاتے تھے۔ وہ ایسی واضح اور قانون کے موافق دلیلیں پیش کرتے تھے کہ جج صاحبان سنتے ہی اثر انداز ہو جاتے تھے۔ ایک نسبتاً چھوٹا کیس جو ایک مقدس پارسی کنویں سے متعلق تھا، ان کی عقلمندی کی مثال ہے۔ میونسپل کارپوریشن نے چرچ گیٹ اسٹیشن کنویں کے قریب عوامی پیشاب خانہ بنانے کی تجویز پیش کی۔ نریمن ایک پی آئی ایل میں پیش ہوئے جس میں کہا گیا تھا کہ پیشاب خانے کو کہیں اور بنایا جائے۔ وہ بنچ کے سامنے کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم بیت الخلاء جاتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم بیت الخلاء کے قریب جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ انھوں نے یہ بات انتہائی سلیقے سے رکھی، بلکہ اس کی دلیل میں منظر کشی کچھ ایسی تھی کہ جس نے کیس کا رخ واضح کر دیا۔


پھر ایک موقع ایسا آیا جب بنگلور-میسور ایکسپریس وے پروجیکٹ میں ریاست کے چیف سکریٹری کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ نے جھوٹی گواہی سے متعلق کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ ایک ایس ایل پی دائر کیا گیا تھا۔ میں کرناٹک کا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ تھا اور نریمن سینئر ایڈووکیٹ تھے۔ درخواست دائر کرنے سے ایک دن پہلے ان کی اور میری ایک اور غیر مربوط معاملے میں تھوڑی سی بحث ہوئی۔ دوسری طرف وکلا کا ایسا گروہ تھا جس میں دشنیت دَوے اور مکل روہتگی شامل تھے۔ نریمن نے کانفرنسوں کے دوران ہماری تضحیک کی تھی اور ہم اس بارے میں بہت پریشان تھے کہ جب ہم عدالت میں جائیں گے تو کیا ہوگا۔ لیکن پھر، جسٹس رمیش چندر لاہوتی اور جسٹس سنتوش ہیگڑے پر مشتمل بنچ کے سامنے، جو اسی دن ریٹائر ہونے والے تھے، وہ اٹھے اور عدالت سے کہا کہ ان کے خیال میں سینئر وکیلوں کو اس معاملے کو مینشن کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جسٹس لاہوتی نے ان سے پوچھا ’’مسٹر نریمن، آپ کا کیا مشورہ ہے؟‘‘۔ جواب میں انھوں نے کہا ’’مسٹر سنجے ہیگڑے یہاں ہیں، وہ ایک اچھے وکیل ہیں اور آپ کو ان کی بات سننی چاہیے۔‘‘ اس ایک بات سے انھوں نے مجھے جیت لیا اور دوسری طرف کے سینئر وکیلوں کو ناک آؤٹ کر دیا۔ جیسے ہی میں یہ کہنے کے لیے اٹھا کہ یہ چیف سکریٹری کا معاملہ ہے، جسٹس لاہوتی نے کہا کہ بنچ اس معاملے پر غور کرے گی اور انھوں نے ہمیں اسٹے دے دیا۔ اس ایپی سوڈ کا مقصد یہ نہیں کہ میں نریمن کا کتنا شکرگزار ہوں، بلکہ یہ ہے کہ انھوں نے ایسی حکمت عملی سے کام لیا جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

وہ علم کا ایک ایسا چشمہ تھے کہ جو ان سے جڑتا مالا مال ہو جاتا۔ ان کے دیرینہ جونیئر سبھاش شرما بار ایسو سی ایشن کے کسی پروگرام کے تحت ان کے پاس آئے، جہاں قانونی پس منظر کے بغیر جونیئرز کو سینئرز کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔ شرما جموں سے آئے تھے اور تب انگریزی میں ہاتھ تنگ تھا۔ انھوں نے 1980 کی دہائی کے وسط میں جب بھوپال گیس کیس چل رہا تھا، نریمن کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور آج تک ان کے ساتھ ایک جونیئر اور تقریباً رضاعی بیٹے کے طور پر رہے۔ وہ نریمن کے سانچو پائزا اور بوسویل تھے۔ انھوں نے نریمن کے تقاضوں کو سیکھا اور ساتھ ہی انھیں اتنی ہندی سکھائی ہوگی جتنا نریمن نے انھیں قانون سکھایا ہوگا۔


آخری دم تک ان کا دماغ تیز اور متحرک تھا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اپنی موت سے ایک دن پہلے رات 10 بجے تک وہ ایک کیس پر کام کر رہے تھے۔ میری ان سے آخری ملاقات اپریل 2023 میں ہوئی تھی۔ اس وقت تک ان کی اہلیہ، بپسی نریمن، جن کے ساتھ انھوں نے 60 سال سے زیادہ کی شراکت داری کی تھی، انتقال کر چکی تھیں۔ لیکن نریمن زندگی سے بھرپور تھے۔ وہ اپنے پیچھے اپنے بیٹے روہنٹن کو چھوڑ گئے ہیں، جس نے قانون کے میدان میں ایک شاندار سفر طے کیا ہے اور انہتا نامی ایک بیٹی بھی ہے۔ وہ دنیائے فانی کو چھوڑ چکے ہیں، لیکن ان کی میراث ان کے بعد آنے والے کئی مرد و خواتین کی راہیں روشن کرتی رہیں گی۔

(مضمون نگار سنجے ہیگڑے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں۔ انھوں نے یہ مضمون انگریزی زبان میں لکھا جس کا اردو ترجمہ کیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل صنوبر فاطمہ نے کیا ہے۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔