کروڑوں خرچ ہونے کے بعد بھی کیوں اسمارٹ نہیں بن پائے سو شہر، کیا جواب دے گی حکومت؟
نئے بجٹ میں مرکزی حکومت نے پھر ہوائی محل تیار کئے ہیں لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ ’اسمارٹ سٹی‘ کے نام پر کئی ہزار کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود شہر کی ایک گلی بھی ’اسمارٹ‘ کیوں نہیں بن سکی؟
مرکز کی مودی حکومت نے اپنی تیسری مدت کار کا پہلا مکمل بجٹ پیش کر دیا ہے اور اس پر حکمران جماعت اور اپوزیشن کی جانب سے دعوے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ منتخب ریاستوں کے لیے تحائف کا تھیلا کھولنے کے علاوہ اس بجٹ نے ملک کو کافی حد تک مایوس کیا ہے۔ ایسے میں مودی حکومت کے پچھلے 10 سالوں میں کیے گئے وعدوں اور دعوؤں کی حقیقت کی چھان بین ضروری ہے۔ اس میں ایک ایسی اسکیم بھی شامل ہے، جس کا حکمران جماعت نے کافی ڈھول پیٹا تھا اور یہ اسکیم ہے ’اسمارٹ سٹی پروجیکٹ‘۔
بی جے پی نے 2014 میں مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے 100 شہروں کو ’اسمارٹ سٹی‘ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے کے نام پر کئی شہروں میں کھدائیاں ہوئیں اور اس کے نتیجے میں بیشتر شہروں کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا کہ تھوڑی سی بارش سے تمام شہر ندی نالوں میں تبدیل ہو جانا اس نام نہاد شہری کاری کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسمارٹ ہونا تو دور کی بات مانسون شروع ہوتے ہی یہ شہر پہلے سے زیادہ ڈوب رہے ہیں، جبکہ ایک ماہ پہلے تک یہ اسی طرح پانی کو ترس رہے تھے جس طرح کروڑوں روپے خرچ کرنے سے پہلے ترستے تھے۔
حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ جولائی 2024 تک 100 شہروں نے اسمارٹ سٹی مشن کے ایک حصے کے طور پر 144237 کروڑ مالیت کے 7188 پروجیکٹ (کل پروجیکٹوں کا 90 فیصد) مکمل کر لئے ہیں۔ 19926 کروڑ روپے کے بقیہ 830 پروجیکٹ بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ اسمارٹ سٹی مشن میں حکومت نے 100 شہروں کے لئے 48000 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے۔ اس میں سے اب تک 46585 کروڑ روپے (مختص بجٹ کا 97 فیصد) 100 شہروں کو جاری کیا گیا ہے، جس میں سے 93 فیصد استعمال ہو چکا ہے۔ مشن کے تحٹ 100 میں سے 74 شہروں کو حکومت ہند کی مکمل مالی امداد بھی جاری کر دی گئی ہے۔ حکومت ہند نے بقیہ 10 فیصد پروجیکٹوں کو مکمل کرنے کے لیے مشن کی مدت 31 مارچ 2025 تک بڑھا دی ہے۔ شہروں کو مطلع کیا گیا ہے کہ یہ توسیع مشن کے تحت پہلے سے منظور شدہ مالیاتی مختص سے زیادہ کسی اضافی لاگت کے بغیر ہوگی۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسمارٹ سٹی کا تصور کیا تھا؟ اس میں شہر کے ایک چھوٹے سے حصے کو اس طرح تیار کیا جانا کہ وہاں پانی کی مناسب فراہمی، یقینی بجلی کی فراہمی، صفائی ستھرائی بشمول سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، موثر شہری نقل و حرکت اور پبلک ٹرانسپورٹ، سستی رہائش، خاص طور پر غریبوں کے لیے، مضبوط آئی ٹی کنیکٹیویٹی اور ڈیجیٹلائزیشن، گڈ گورننس، خاص طور پر ای گورننس اور شہریوں کی شرکت، پائیدار ماحول، شہریوں، خاص طور پر خواتین، بچوں اور بزرگوں کی حفاظت، صحت اور تعلیم کے بہترین انتظامات کے لئے تیار کیا جا سکے۔
اس منصوبے کا مقصد شہروں کو یورپ کے خطوط پر استوار کرنا تھا لیکن ہندوستان میں شہری کاری کا تصور اور اسباب یورپ سے بہت مختلف ہیں۔ روزگار، بہتر صحت اور تعلیم جیسی وجوہات کی وجہ سے یہاں شہری کاری بڑھ رہی ہے اور شہر میں رہنے والی ایک بڑی آبادی کے لیے شہر ان کا گھر نہیں بلکہ کمانے کی جگہ ہے۔
لوگوں کو اس سمارٹ سٹی پروجیکٹ کی خبر نہیں تھی اور بہت دیر سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ جن 100 شہروں کو اسمارٹ سٹی بنانے کے لیے اتنا بڑا بجٹ رکھا گیا ہے، وہ دراصل شہر کے ایک چھوٹے سے حصے کی تعمیر نو کا منصوبہ ہے۔ کچھ شہروں میں اس اسکیم میں صرف ایک فیصد بڑے بڑے شہروں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ شہر کے جس حصے کو کاغذوں پر اسمارٹ بنایا گیا تھا وہاں پانی کے جماؤ اور پینے کے پانی کی قلت مزید کیوں بڑھ گئی گئی ہے۔
کچھ شہروں میں تو اسکیم کے فنڈ میں کٹوتی بھی کر دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر پڈوچیری میں اسمارٹ سٹی اقدام کے تحت ٹریفک، سیوریج، مارکیٹ کی سہولیات اور پارکنگ سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے 66 ترقیاتی منصوبوں میں سے 32 کو حال ہی میں ملتوی کر دیا گیا تھا۔ شروع میں اس سب پر 1056 کروڑ روپے خرچ ہونے تھے لیکن اب ان کا بجٹ گھٹ کر 620 کروڑ رہ گیا ہے۔ مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ فراہم کردہ بجٹ کا بہت کم استعمال کیا گیا اور اس وجہ سے یہ منصوبہ ملتوی کر دیا گیا۔
ہاؤسنگ اور شہری امور سے متعلق پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے 8 فروری 2024 کو ’اسمارٹ سٹی مشن: ایک تشخیص‘ پر اپنی رپورٹ پیش کی تھی جس میں اس منصوبے کے متوقع نتائج نہ آنے کی کئی وجوہات بتائی گئی تھیں۔ اس میں بڑے پیمانے پر کہا گیا ہے کہ مرکزی ایجنسیوں، مقامی انتظامیہ اور حکومت کے درمیان تال میل میں مسئلہ تھا۔ مقامی نمائندوں نے اس مشن میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ ارکان پارلیمنٹ ریاستی سطح کے مشاورتی فورموں میں شامل نہیں ہوتے۔ کمیٹی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اسمارٹ سٹی پروجیکٹ پورے شہر کے بجائے صرف شہر کے ایک چھوٹے سے حصے میں لاگو ہونے کی وجہ سے مجموعی نتائج نظر نہیں آ رہے۔
کمیٹی نے مزید کہا کہ بڑی مقدار میں نجی اور سرکاری ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اور اسمارٹ سٹی کے لیے استعمال کیا گیا لیکن اس کی سیکورٹی پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ کمیٹی نے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو سائبر خطرات سے بچانے اور ڈیٹا کی رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے ایک طریقہ کار بنانے کی سفارش کی۔
پارلیمانی کمیٹی نے بتایا کہ شمال مشرقی ریاستوں کے شہروں سمیت کئی چھوٹے شہروں میں اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کی پیش رفت سست ہے۔ کئی اسمارٹ شہریوں میں ہزاروں کروڑ روپے کے منصوبوں کو تیار کرنے اور ان پر خرچ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ مرکز سے 90 فیصد فنڈنگ حاصل کرنے کے باوجود دسمبر 2023 تک 20 سب سے نچلے درجے کے شہروں میں 47 فیصد پروجیکٹ صرف ورک آرڈر تک پہنچے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تکنیکی اور دیگر سطحوں پر لوکل اربن باڈی کی کمزوری ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ اسمارٹ سٹی مشن پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تصور پر بری طرح ناکام رہا ہے۔
اب نئے بجٹ میں مرکزی حکومت نے ایک بار پھر ہوائی محل تو کھڑے کر دئے ہیں لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ سو اسمارٹ سٹیز تیار کرنے اور ان پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کئے جانے کے باوجود شہر تو کیا ایک گلی بھی ’اسمارٹ‘ کیوں نہیں ہو پائی؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔