عیدالاضحیٰ: یہ نئے مزاج کا شَہر ہے، ذرا فاصلوں سے ملا کرو...

خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کورونا کی وجہ سے لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب ہو گئی ہے اور کئی گھروں میں قربانی نہیں ہوگی، جس سے تہوار کا مزہ شاید پھیکا پڑ جائے۔ لیکن بہار میں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

کورونا بحران نے کیا دن دکھا دیا ہے۔ لوگوں کی عیدالفطر بھی بغیر مصافحہ اور معانقہ کے گزر گئی، اور اب عیدالاضحیٰ میں بھی عزیزوں سے فاصلے برقرار ہیں۔ سبھی ملاقات کے مشتاق ہیں، لیکن 'احتیاط' نے لوگوں کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ بیشتر گھروں میں تو قریبی رشتہ داروں نے مل کر عید کی نماز باجماعت ادا کر لی، اور ساتھ بیٹھ کر قربانی کے گوشت کا ذائقہ بھی لے لیا، لیکن کچھ لوگوں پر 'کورونا وائرس' نے ایسی دہشت طاری کر دی ہے کہ موبائل پر مبارکبادیاں اور خیریت دریافت کرنے سے آگے بات نہیں بڑھی۔ یہ دہشت بلاوجہ بھی نہیں ہے، کیونکہ آج ہی ہندوستان میں کورونا انفیکشن کے ریکارڈ 57 ہزار سے زائد نئے مریض سامنے آئے ہیں۔ احتیاط لازمی ہے، لیکن کچھ لوگوں نے 'اخلاقیات' کو قدرے زیادہ اہمیت دے کر عزیز و اقارب سے ملنا پسند کیا۔ اب یہاں پر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ 'اخلاقیات' کا دامن تھامنے والے کو مناسب ٹھہرایا جائے یا پھر 'احتیاط' پر کمربستہ لوگوں کو۔ ویسے اُن لوگوں کو دیکھ کر اچھا لگا جنھوں نے 'احتیاط' کے ساتھ 'اخلاقیات' کو فروغ دینے کا راستہ اختیار کیا۔

بہر حال، ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں (چند ایک ریاست میں عید 31 جولائی کو تھی) آج عید الاضحیٰ کی نماز بہت سادگی کے ساتھ ادا کی گئی۔ راجدھانی دہلی کی کچھ مساجد میں زائد از 50 لوگوں کی باجماعت نماز کا اہتمام ضرور ہوا، لیکن اکثر ریاستوں میں 7-5 افراد کی جماعت ہی مسجدوں میں بنی۔ بہار میں بھی عیدگاہ بند رہی اور مسجدوں میں محدود جماعت کا نظارہ تھا۔ لیکن اس درمیان سب سے اچھی بات جو سامنے آئی، وہ یہ کہ قربانی کو لے کر لوگوں نے بہت اچھے انتظامات کیے تھے۔ حکومتی گائیڈ لائن کے مطابق کھلے مقامات پر ذبیحہ سے پرہیز کیا گیا اور سنت ابراہیمی کی نمائش بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔


حالانکہ ایسا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کورونا وبا کی وجہ سے لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب ہو گئی ہے اور کئی گھروں میں قربانی نہیں ہوگی، جس سے تہوار کا مزہ شاید پھیکا پڑ جائے۔ لیکن بہار میں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ راجدھانی پٹنہ کے کئی علاقوں میں چھوٹے اور بڑے جانوروں کی بھیڑ دیکھنے کو ملی اور ایسے لوگ دال میں نمک کے برابر ہی ہوں گے جنھوں نے گزشتہ سال قربانی دی ہو اور اس مرتبہ نہیں دی۔ اسی طرح سمستی پور، سپول، دربھنگہ وغیرہ اضلاع میں بھی نہ ہی قربانی کو لے کر کسی طرح کی سُستی دیکھنے کو ملی، اور نہ ہی کہیں سے کسی ناخوشگوار واقعہ کی خبر سامنے آئی۔

سپول کے ایک باشندہ محمد مبین نے تو بتایا کہ پہلے کے مطابق مقامی مسلمانوں میں قربانی کو لے کر کچھ زیادہ جوش نظر آ رہا ہے، اور اگر گھر میں پانچ افراد ہیں تو سبھی کے نام سے قربانی ہو رہی ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ سپول کے ایک خاص علاقہ میں مسلمانوں کا 20-15 گھر ہے اور تقریباً سبھی گھر میں قربانی ہو رہی ہے۔ جانوروں کی خریداری میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا، ہاں یہ ضرور ہے کہ پہلے جس طرح سے مویشی کی منڈی لگتی تھی وہ اس بار دیکھنے کو نہیں ملی۔


کچھ ایسا ہی ماحول برونی علاقے میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہاں کے مقامی باشندہ محمد اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں میں تیگھڑا، بیگو سرائے اور کچھ دیگر علاقوں سے مویشی فروخت کرنے کے لیے لوگ برونی پہنچتے تھے، لیکن اس مرتبہ ان کی آمد نہیں ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ کورونا وبا کی وجہ سے چھوٹے-بڑے جانوروں کی بہت زیادہ بھیڑ تو نہیں رہی، لیکن مقامی سطح پر لوگوں نے کافی جانور رکھے ہوئے تھے جن سے قربانی کے لیے جانور خریداری میں کسی کو پریشانی نہیں ہوئی۔

کچھ مقامات پر شروع میں جانور مہنگے ہونے کی باتیں ضرور سامنے آئی تھیں، لیکن آخر کے دنوں میں مناسب قیمت پر قربانی کے لیے مویشی تقریباً ہر جگہ دستیاب تھے۔ اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے راجدھانی پٹنہ کے باشندہ ارمان کہتے ہیں کہ ایک وقت بکرے کی قیمت کچھ زیادہ تھی، لیکن پہلے جو بکرے 20-18 ہزار تک میں مل رہے تھے وہی آخر کے دنوں میں 12-10 ہزار میں ملنے لگے۔


گویا کہ جو لوگ کورونا وبا کی وجہ سے طرح طرح کے خدشات میں مبتلا تھے، اللہ رب العزت نے ان کے لیے آسانیاں پیدا کر دیں۔ آج جب لوگوں سے بات چیت کے دوران گھر گھر میں عید کی نماز پڑھے جانے کی خبر ملی، اور پھر بہت احتیاط کے ساتھ جانور کی قربانی دینے کی باتیں سامنے آئیں تو ایک خوشگوار احساس ہوا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں صبر نہیں، وہ لاپروائی کرتے ہیں اور قانون کو ہاتھوں میں لیتے ہیں، یہ عیدالاضحیٰ ان کے لیے بہترین جواب ہے جہاں نمازیں بھی ادا ہوئیں، قربانی بھی ہوئی اور گوشت کی تقسیم کا عمل بھی انجام پایا... سب قانون کے دائرے میں ہوا، گائیڈ لائن کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا، اور انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ ہوا۔ کچھ ایک جگہ پر اگر کسی طرح کی بداحتیاطی ہوئی ہوگی تو اسے استثنیٰ سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے درمیان ایسی عید کا تصور نہیں کیا جا رہا تھا۔ آپ سب کو یہ عید مبارک۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Aug 2020, 2:38 PM