سرکاری جھوٹ کا خلاصہ

ناکامیوں کوچھپانے کی خاطر حکومت ملک کے عوام کوایسے جذباتی اورنفرت بھرے ماحول میں دھکیلنے کی کوشش کررہی ہے جس کی وجہ سے لوگ حقائق کودیکھنے اور سمجھنے سے منہ موڑلیں۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

راشد احمد

معیشت کے استحکام اورملک میں تیز اقتصادی ترقی کے سرکاری دعووں اور سرکارکی درباری میڈیا کے گانے بجانے کے درمیان مرکزی حکومت نے سال 18-2017 کے کل گھریلو پیداوار کے اعداد وشمار جاری کردئیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کے دعوؤں کاکھوکھلا پن بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اعداد شمار سے ثابت ہوگیا ہے کہ زیادہ تر شعبوں میں ترقی کی رفتار تشویشناک حد تک سست ہوگئی ہے۔ حقیقت حال جاننے کی وجہ سے ہی انتخاب میں بی جے پی اقتصادی حصولیابیوں پر بحث کرنے کے بجائے جناح، رام مندر اورلوجہاد جیسے معاملات پر لوگوں کوجذباتی بناکر گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن حالیہ انتخابی نتائج نے ثابت کردیا ہے کہ بی جے پی کے جناح ایشو پر پٹرول-ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں اورگنّا کسانوں کی بدحالی کا معاملہ بھاری پڑا اوربی جے پی سمیت پورے این ڈی اے کو اپنے مضبوط علاقوں میں منھ کی کھانی پڑی۔

ہمارا ملک کسانوں کاملک ہے اور یہاں ان کی اکثریت ہے اسی لئے کسانوں کو راغب کرنے اورانہیں اپنا ہم نوا بنانے کے لئے نریندرمودی حکومت نے کسانوں کی آمدنی 2022 تک دوگنا کردینے کااعلان کیا۔ اس وقت سے وزیراعظم اور تمام مرکزی وزرا یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ آمدنی دوگنی ہوجائے گی اوربہتری شروع ہوچکی ہے۔ لیکن خود سرکاری اعداد وشمارسے ظاہر ہے کہ زرعی پیداوار گھٹ کر آدھی رہ گئی ہے۔ سال 17-2016 میں پیداوار میں 6.3 فیصد کا اضافہ ہوا تھا جونشانہ سے کم تھا حکومت نے اگلے سال بہتر ہونے کا یقین دلایا تھا لیکن سال 18-2017 میں یہ بہتر ہونے کے بجائے آدھی ہوگئی۔ اس مدت میں زرعی پیداوار میں اضافہ کی رفتار صرف 3.4 فیصد درج کی گئی۔ المیہ یہ ہے کہ کسانوں کی سخت محنت اور موافق صورت حال سے اگر کاشتکاری بہتر بھی ہوتی ہے تو سرکاری عدم توجہی اور دلالوں کے تال میل کی وجہ سے اس کا فائدہ کسانو ں کوملنے کے بجائے درمیان کے دلالوں کومل جاتا ہے جس کی تازہ مثال راجستھان کے پیازکاشتکاروں کی ہے۔ یہاں کاشت اچھی ہوئی لیکن منڈی میں قیمت زمین پر آگئی جس کی وجہ سے کسان گویا پیاز پھینک کر آگئے۔ بڑی وجہ یہ بنی کہ حکومت نے پیاز کی قیمت تو اچھی طئے کی لیکن سرکاری خریداری سست رہی تاکہ کسان منڈیوں میں جائیں اوردلالوں کے ہاتھوں لٹنے کومجبور ہوجائیں۔

اسی طرح مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں بھی لگاتار کمی کاسلسلہ جاری ہے۔ اس شعبہ میں سال 16-2015 کے دوران جوشرح نمو10.8 فیصد تھی وہ سال 17-2016 میں گھٹ کر 7.9 فیصد رہ گئی اور سال 18-2017 میں مزید کم ہوکر 5.7 فیصد رہ گئی۔ کان کنی کے شعبہ میں ترقی کی رفتارسال 16-2015 میں 10.5 فیصد تھی لیکن سال 17-2016 میں یہ گھٹ کر صرف 1.3 فیصد رہ گئی تھی سال 18-2017 میں اس میں معمولی سدھار ہوا ہے اور اس میں ترقی کی رفتار صرف 2.9 فی صد درج کی گئی ہے اسی طرح بجلی، گیس اورمتعلقہ شعبوں میں بھی اس مالی سال میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 17-2016 میں اس کی شرح نمو9.2 فی صد تھی لیکن سال18-2017 میں یہ کم ہوکر 7.2 فیصد رہ گئی۔

دفاعی شعبہ اورپبلک کنسٹرکشن کے معاملے میں بھی کمی درج کی گئی ہے۔ حالانکہ اس شعبہ میں آنے والی کمی زیادہ نہیں ہے ۔ سال 18-2017 میں اس شعبہ کی شرح نمو 10.6 فیصد تھی لیکن سال 18-2017 میں یہ 10 فیصد رہی۔ اس کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں لیکن اہم اور قابل غوربات یہ ہے کہ ان تمام شعبوں میں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنے کا رویہ سامنے آرہا ہے جوبہت ہی تشویش کی بات ہے۔ اعداد وشمار میں تعمیرات، ریئل اسٹیٹ اورفنانس کے شعبہ میں بہتری سامنے آئی ہے تعمیرات کے شعبے میں سال 17-2016 میں شرح نمو1.3 فیصد تھی جوسال 18-2017 میں کئی گنا بڑھ کر 5.7 فیصد ہوگئی، ٹریڈ اینڈسروسزکی شرح نمو7.2 فیصد سے بڑھ کر سال 18-2017 میں 8 فیصد ہوگئی جبکہ فنانس اورریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں سال17-2016 کے 6 فی صد شرح نمو کے مقابلے سال 18-2017 میں شرح نمو 6.6 فی صدد رج کی گی۔

لیکن اس میں حیرت کا ایک پہلو اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب روزگار دینے والے اورآمدنی بڑھانے والے زیادہ ترشعبوں میں شرح نمو اور پیداوار کم ہوئی ہے تو پھر تعمیرات اورریئل اسٹیٹ وفنانس کی سرگرمیوں میں اضافہ کیسے ہوگیا؟ دراصل مودی حکومت کے دوبڑے فیصلوں نے ملک کی معیشت کی کمرتوڑدی ہے۔ اس میں ایک تونوٹ بندی کافیصلہ تھا جس کی وجہ سے ابتدائی تین مہینوں میں تو کاروبار پوری طرح ٹھپ پڑگیا اس کے بعد بھی اس میں بتدریج ہی سدھار آپایا اور آج تک کاروباری اس مار سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔

دوسرا فیصلہ GST کے نفاذ کا تھا جس نے رہی سہی کثر بھی نکال دی اور معیشت کی کمرپوری طرح توڑدی۔ حالانکہ مودی سرکار کوخود بھی اس کا احساس شدت سے ہوا ہے اور اسی لئے جی ایس ٹی میں شامل اشیاء اور اس پرشرح ٹیکس میں تیزی سے کمی بھی کی گئی لیکن یہ دونوں ہلاکت میں ڈالنے والے فیصلے ثابت ہوئے ہیں سچائی تو یہ ہے کہ مرکز کی مودی حکومت جن بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی وہ ان تمام وعدوں کوپورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایک طرف معیشت کی ترقی میں کمی آگئی ہے دوسری طرف مہنگائی میں لگاتار اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے غریبوں کی زندگی حرام ہو رہی ہے۔ روزگار فراہمی کے شعبہ میں بھی حکومت پوری طرح ناکام ہے، وعدہ یہ تھا کہ ہرسال ایک کروڑ روزگار مہیا کرایا جائے گا جبکہ حکومت سالانہ 10لاکھ روزگار فراہم کرانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اس کی وجہ سے گزشتہ چارسال کے دوران بے روزگاری میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہواہے۔ حکومت کی مدت اب ایک سال سے بھی کم رہ گئی ہے۔ ظاہر ہے اب وہ کوئی کرشمہ نہیں کرسکتی۔

ان ناکامیوں کوچھپانے کی خاطر حکومت ملک کے عوام کو ایسے جذباتی اورنفرت بھرے ماحول میں دھکیلنے کی کوشش کررہی ہے جس کی وجہ سے لوگ نفرت کے سبب دوسرے حقائق کودیکھنے اور سمجھنے سے منہ موڑلیں۔ اس تھیوری سے کوئی بھی پارٹی عارضی کامیابی تو حاصل کرسکتی ہے دیرپا نہیں لیکن اس کی قیمت ملک کوبہت بھاری چکانی پڑسکتی ہے۔ جوکہ دیکھا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کوحالیہ انتخابی نتائج سے سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کی گندی اوربھونڈی سیاست سے لوگ اکتا گئے ہیں۔ قبل اس کے کہ لوگ اسے بدل دیں، بہترہے کہ وہ خود بدل جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Jun 2018, 4:46 AM