حکمرانوں کی مفاد پرستی، ’غیروں‘ کے ساتھ ساتھ اپنے بھی بیزار
ہمارے حکمرانوں نے مفاد پرستی کو مملکت پر ترجیح دینے کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ’غیروں‘ کے ساتھ ساتھ اب اپنے بھی حکمرانوں سے بیزار ہونے لگے ہیں
بلا شبہ انسان فطرتاً خود پسند اور خود غرض واقع ہوا ہے۔ وہ اپنی ضد اور اناوں کے خول میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اسے صرف اپنے نظریات، جذبات، احساسات اور خیالات کا پرچار کرنا اور دوسروں پر حاوی ہونا اچھا لگتا ہے۔ معاشرت سے لے کر مذہب تک اور معیشت سے لے کر سیاست تک اور صحافت سے لے کر عدالت تک غرض ہر شعبہ ہائے زندگی انسانی فطرت کے یہ مظاہر آپ کو جا بجا نظر آئیں گے۔ یہی چیزیں قوموں اور ملکوں کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ریاست کے معاملات چلانے کے لیے آئین بنیادی دستاویز ہوتا ہے جس میں ریاست کے تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کیا جاتا ہے۔ عوام سے لے کر خواص تک سب کے آئینی بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔ انفرادی و اجتماعی ہر دو حوالوں سے فرد اور اداروں پر لازم ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق فرائض منصبی ادا کریں یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ سیاسی استحکام کی علامت ہے، معیشت کے مستحکم ہونے کی ضمانت ہے، عوام کے حقوق کے تحفظ کی دلیل ہے اور ملک کی ترقی کا راز بھی۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار ملک کی ترقی کے اس راز حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود آئین کے مطابق امور مملکت چلانے میں ناکام چلے آ رہے ہیں۔ حکمرانوں اور اداروں سے لے کر ایوانوں تک سب کا دعویٰ ہے کہ ہم آئین کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر تضادات کیوں ہیں؟ اختلافات کیوں ہیں؟ رنجشیں کیوں ہیں؟ چپقلش کیوں ہے؟ ایک دوسرے کے موقف کو سننے، سمجھنے اور افہام و تفہیم سے مسائل و معاملات کو سلجھانے اور حل کرنے کی کاوشیں رنگ نہیں لا رہی ہیں جو افسوس ناک ہے۔
ان تمام مسائل کی وجوہات پر منصفانہ طریقے سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے حکمرانوں نے مفاد پرستی کو مملکت پر ترجیح دینے کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’غیروں‘ کے ساتھ ساتھ اب اپنے بھی حکمرانوں سے بیزار ہونے لگے ہیں۔ عوام کے درمیان اپنی گزشتہ کارکردگی اور مستقبل کے منصوبے پیش کرنے کی بجائے ووٹ مانگنے کے لیے دیوی دیوتاوں کو بطور نشان استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمراں بی جے پی کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں تبھی وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مہذب سماج کے خلاف باتیں کرنے پر بضد ہے۔
پچھلے دنوں میرٹھ حلقے سے پارٹی کے امیدوار ارون گوول کو ایک انتخابی ریلی میں ’رام ‘ کی تصویر دکھانے کے بعد ضلع مجسٹریٹ کے دفتر سے نوٹس موصول ہوا۔ تاہم اس کارروائی نے بی جے پی لیڈروں کو مذہبی اشارے دہرانے سے نہیں روکا۔ کچھ دن بعد ایک انتخابی جلسے میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی رام کی تصویر رکھی۔ 18 اپریل کو میرٹھ میں منعقدہ ایک عوامی میٹنگ میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ووٹروں پر زور دیا کہ ’رام‘ کو لانے والے کو اقتدار میں لائیں۔ آدتیہ ناتھ نے پھر کہا کہ یہاں، ارون گوول، جنہوں نے شری رام کا کردار ادا کیا تھا، خود آپ کے امیدوار ہیں۔
یوگی اور گوول سے دو قدم آگے جاتے ہوئے حیدرآباد سے بی جے پی امیدوار مادھوی لتھا کے ویڈیو نے تو حد ہی کر دی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مسجد کی جانب رخ کر کے تیر چلا رہی ہیں۔ یوں ایک فرقہ کے لوگوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ مسلمانوں کو کھل کر ٹارگٹ کیا جائے۔ حیدرآباد پولیس نے لتھا کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے کارروائی نہ ہونے کی صورت میں بی جے پی لیڈروں نے مذہبی بنیادوں پر ووٹ مانگنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں ’کچھ بھی‘ کہنے اور کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
تاہم مذہبی جذبات بھڑکا کر ہندو وٹروں میں بی جے پی کے لیے ہمدردی پیدا کرنے کی حکمت عملی زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکی۔ وجہ یہ ہے کہ بیشتر ہندو عوام اب اس فرسودہ اور گھسے پٹے لالی پوپ سے متاثر ہونے کو تیار نہ تھے۔ وہ ملازمتیں، بچوں کے لیے سستی تعلیم، مفت علاج اور سستی ضروریاتِ زندگی چاہتے ہیں۔ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کے پاس جادو کی چھڑی تو ہے نہیں کہ وہ اسے چلائیں اور دفعتہً عوام کی ساری مانگیں پوری کر دیں۔ اس لیے عوامی مسائل سے دھیان بھٹکانے کے لیے انتخابی مہم میں مسلم دشمنی کا جانا مانا حربہ اختیار کیا جانے لگا ہے۔
یاد ہوگا کہ لوک سبھا انتخابات 2024 کے پہلے مرحلہ میں کسی حد تک حدود میں رہتے ہوئے مہم چلائی گئی تھی۔ تاہم جیسے ہی بی جے پی کو یہ اندازے ہونے لگے کہ انتخابات میں اسے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس نے اپنی انتخابی مہم کا رخ ہی تبدیل کر دیا۔ دوسرے مرحلہ کے بعد سے تو بی جے پی کے تیور مزید جارحانہ ہو گئے تھے۔ بی جے پی نے ساری کوشش یہی کی کہ منفی سوچ و ذہنیت کے ساتھ مہم چلائی جائے۔ یہی وجہ رہی کہ بی جے پی کی جانب سے مہم کے روح رواں نریندر مودی نے راست ہندو مسلم کارڈ کھیلنا شروع کر دیا۔
اب جبکہ چار مراحل کی مہم ختم ہو چکی ہے اور پیر کو ووٹ ڈالے جانے والے ہیں ایسے میں یہ اندیشے بھی بے بنیاد نہیں ہو سکتے کہ بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کی جانب سے آئندہ مراحل کے انتخابات کے لیے مہم کو مزید پستی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار کر دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں رائے دہندگان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ بی جے پی خود اپنے حق میں ووٹ مانگنے کے موقف میں نہیں رہ گئی ہے۔ وہ صرف منفی ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے اور منفی ووٹ لینے کے بعد وہ ترقی کے لیے کام کرنے کی بجائے منفی ایجنڈے کی تکمیل ہی میں سرگرم رہے گی۔
ایسے میں عوام کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو ملک اور ملک کے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں رائے دہی میں حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنا چاہئے اور اپنے ووٹ کے ذریعہ رائے دینا چاہئے کہ وہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سنجیدگی سے منصوبے پیش کرنے والوں کے ساتھ ہیں یا پھر ہندو مسلم کا کھیل کھیلتے ہوئے سماج میں تفریق پیدا کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں۔ مسائل پر توجہ دیتے ہوئے جس طرح سے اپوزیشن اتحاد نے اب تک کام کیا ہے اسے آئندہ بھی مزید چوکسی کے ساتھ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی تین مراحل کے تجربہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ خامیاں اگر دکھائی دیں تو آئندہ مراحل کے لیے انہیں دور کرنا چاہئے۔ نفرت کی سیاست کو ترقی کے نعروں سے بے اثر کرنے کے لیے کمر کس لینی چاہئے۔ شخصی اور ذاتی حملوں پر مایوس ہونے کی بجائے مزید عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ عوام میں حکومت اور برسر اقتدار جماعت کے حقیقی منصوبوں کو پیش کرتے ہوئے ان میں شعور بیدار کرنا چاہئے کیونکہ با شعور عوام فرقہ پرستوں کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوا تو آئندہ ہونے والے انتخابات کے لیے شفاف اور منصفانہ ماحول کی امید کی جا سکتی ہے جو ملک اور عوام کے لیے نیک شگون ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔