دوسری سہ ماہی میں انکم ٹیکس سے ہونے والی زیادہ کمائی کی وجہ نوٹ بندی نہیں
کہا جا رہا ہے کہ انکم ٹیکس سے ہونے والی کمائی میں نوٹ بندی کے بعد اضافہ ہوا، جو غلط ہے۔ دراصل ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارشیں نافذ ہونے سے بیشتر سرکاری ملازمین ٹیکس والی آمدنی کے دائرہ میں آ گئے ہیں۔
نریندر مودی نے جب 8 نومبر 2016 کو ڈرامائی انداز میں 500 اور 1000 کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تو انھوں نے اس کے پیچھے تین اہم مقاصد بتائے تھے۔ پہلا تھا کالے دھن پر قدغن لگانا، دوسرا تھا نقلی اور فرضی نوٹوں پر روک لگانا، اور تیسرا تھا دہشت گردوں کی فنڈنگ پر روک لگانا۔ نومبر میں ملک میں کل 17.97 لاکھ کروڑ روپے نقدی چلن میں تھی اور اس کا 86 فیصد حصہ 500 اور 1000 کے نوٹوں کی شکل میں تھا۔
مودی حکومت کے ڈھولکوں اور بھکتوں نے اس اعلان کو مودی کا ماسٹر اسٹروک قرار دیا اور بتایا جانے لگا کہ نوٹ بندی سے ریزرو بینک کو 4-3 لاکھ کروڑ کا فائدہ ہوگا۔ سرکاری نظامِ تشہیر بھی تیزی سے سرگرم ہوا اور اس نے پرانے نوٹوں کو ندی و کنوؤں میں پھینکے جانے کی تصویریں پیش کرنی شروع کر دیں۔ ایسا احساس کرایا جانے لگا تھا کہ بدعنوانوں اور ٹیکس چوروں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں اور وہ اپنی نقدی پھینک رہے ہیں۔ لیکن ملک کے لوگ بھی کاٹھ کے نہیں بنے ہیں، اور آج تصویر یہ ہے کہ جتنی نقدی بند کی گئی تھی اس کا 99.3 فیصد آر بی آئی میں واپس آ گیا۔
نقلی نوٹوں کی جہاں تک بات ہے تو ہاں، 2016 میں ضرور نقلی نوٹ ایک مسئلہ تھا۔ 15-2014 میں نقلی نوٹوں کی تعداد 22 فیصد بڑھ کر تقریباً 6 لاکھ نوٹ تک پہنچ گئی تھی۔ گزشتہ سال اپریل تک 500 روپے قیمت کے 1646 کروڑ روپے 100 قیمت کے 1642 کروڑ نوٹ چلن میں تھے۔ ان میں سے بے حد کم نقلی پائے گئے۔ لیکن اس کے لیے دوسرا طریقہ اختیار کیا جا سکتا تھا جس سے زیادہ قیمت والے نوٹوں کو بدلا جا سکے۔
اب رہی بات دہشت گردی کی، تو جموں و کشمیر میں دہشت گردی اور وسط و مشرقی ہند کی ریاستوں میں نکسل ازم میں کمی آئی ہو، ایسے کوئی ثبوت حکومت کے پاس نہیں ہیں۔ اب حکومت ہمیں یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ نکسل واد کا کینسر شہروں میں آ گیا ہے اور شہری نکسلی 4 لاکھ بیرل گرینیٹ لانچر خریدنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یا تو سرکاری تصورات غلط ثابت ہو چکی ہیں یا پھر مسئلہ مزید بڑا ہو گیا ہے۔ زیادہ یہ امکان مناسب معلوم پڑتا ہے کہ سرکاری کی سوچ غلط تھی۔
اتنے بڑے پیمانے پر نقدی کو نظام سے باہر کر دینے سے نریندر مودی نے معیشت کو ضرور تکلیف پہنچائی ہے کیونکہ ہماری پوری معیشت کا 98 فیصد لین دین، جو کہ 68 فیصد بڑی رقم کا ہوتا ہے، نقد میں ہی ہوتا رہا ہے۔ کسی بھی وقت غیر رسمی سیکٹر کے تقریباً 1.5 کروڑ مزدور دہاڑی مزدوری کرتے ہیں اور انھیں آج بھی ان کا محنتانہ نقد میں ہی دیا جاتا ہے۔ سسٹم سے 86 فیصد نقدی باہر کر دینے سے اسی طبقے کو سب سے زیادہ تکلیفیں اٹھانی پڑی تھیں۔
بازار سے نقدی نچوڑ لیے جانے سے روزگار کی بڑے پیمانے پر کمی ہوئی اور لاکھوں لوگ اپنے گاؤوں کو لوٹ گئے۔ اس سب کی قیمت لگائی جائے تو تقریباً 2.25 لاکھ کروڑ بیٹھتی ہے جو اس سال کل جی ڈی پی کا 1.5 فیصد تھا۔ لیکن اس سب کو سمجھنے کے لیے کچھ سرکاری اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔
گزشتہ کچھ دنوں سے حکومتی ترجمان اور میڈیا میں لگاتار بڑھتے جا رہے سرکاری ڈھولک دوسری سہ ماہی کے جی ڈی پی کے اعداد و شمار کو لے کر اچھل کود مچا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح ترقی 8.2 فیصد رہی ہے۔ دوسری سہ ماہی کے اعداد و شمار ہمیشہ سے اونچے رہتے آئے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ اس سہ ماہی میں سرکاری اور نجی سرمایہ میں تیزی لائی جاتی ہے تاکہ سال کے آخر میں پڑنے والے دباؤ کو کم کیا جا سکے۔ 2015 میں دوسری سہ ماہی کے اعداد و شمار 8.4 فیصد اور 2016 میں 8.1 فیصد تھا۔ یہ بھی سچائی ہے کہ 2016 کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح ترقی 9.1 فیصد درج کی گئی تھی اور لگا تھا کہ ہم تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ لیکن اسی سال نوٹ بندی کے خودکش حملہ کے سبب 2017 کی دوسری سہ ماہی میں شرح ترقی 5.6 فیصد پہنچ گئی تھی۔
اب جب کہ 2018 کی دوسری سہ ماہی کے نتائج سامنے آئے ہیں تو یہ ڈھول تاشے پیٹنے کا موقع نہیں ہے۔ اس کا صرف اتنا ہی مطلب ہے کہ ہم پرانے راستے پر لوٹے ہیں اور ہم نے ترقی کا ایک سال اور تقریباً 2.25 لاکھ کروڑ کی چوٹ ملک کو پہنچائی ہے۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سمیت کچھ ماہرین معیشت نے نوٹ بندی سے جی ڈی پی کو تقریباً 2 فیصد نقصان اور تقریباً 3 لاکھ کروڑ کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔
نوٹ بندی سے ملک کے تقریباً 1.5 کروڑ دہاڑی مزدوروں کو جس جسمانی اور ذہنی تکلیفوں سے دو چار ہونا پڑا اس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔ آپ بھوکے بچوں اور پریشان والدین کی تکلیفوں کو کیسے تول سکتے ہیں؟ لیکن کچھ چیزیں ہیں جن سے ہمیں اندازہ لگتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نوٹوں کو دوبارہ چھاپنے، اے ٹی ایم مشینوں کو نئے نوٹوں کے حساب سے کیلیبر کرنے، نئے نوٹوں کو بینکوں اور اے ٹی ایم تک پہنچانے میں حکومت کو تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے۔ حال کے دنوں میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ چین کی سیکورٹی پرنٹنگ پریس کو ٹھیکے پر 2000 روپے قیمت کے نوٹ چھاپنے کا کام دیا گیا تھا۔ چونکہ نوٹ بندی میں نقلی نوٹ کے مسئلہ کو بھی ایک فکر کے طور پر پیش کیا گیا تھا، تو ایسے میں چین میں نوٹ چھپوانے کا کیا اثر ہوگا، اس کا اندازہ لگایا جانا باقی ہے۔
اب دلیل دی جا رہی ہے کہ انکم ٹیکس ٹیکس سے ہونے والی کمائی میں نوٹ بندی کے بعد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس اضافے کی وجہ موٹے طور پر یہ ہے کہ ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارشات نافذ ہو گئی ہیں، اور اس سے 2.35 کروڑ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں تقریباً 24 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان ملازمین کو ایریر سمیت زیادہ تنخواہ ملی ہے۔ ایسے میں سبھی سرکاری ملازمین ٹیکس کے دائرے میں آ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے والوں کیس تعداد میں 2010 سے ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ نوٹ بندی کے بعد 18-2017 میں ریٹرن بھرنے والوں کی تعداد میں 99.49 لاکھ کا اضافہ ہوا تھا اور اس سال 6.84 کروڑ لوگوں نے ٹیکس بھرا تھا۔ 17-2016 کے مقابلے یہ تعداد 16.3 فیصد زیادہ تھی۔ اس سال 85.52 لاکھ زیادہ لوگوں نے ریٹرن داخل کیا تھا۔
ایسا ماننا بالکل مناسب معلوم پڑتا ہے کہ ملک کی معیشت گزشتہ کئی سال سے 7 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس اضافہ کا 73 فیصد صرف ٹاپ ایک فیصد کے پاس ہی جا رہا ہے۔ اور اسی ایک فیصد کا ملک کی کل دولت کے 58 فیصد پر قبضہ ہے۔ ایسے میں اگر ٹیکس دینے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو تعجب کس بات کی؟
اور آخر میں، بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت آخر کالے دھن کے صرف نقدی والے حصے کے پیچھے ہی کیوں پڑی ہے جب کہ یہ تو کالے دھن کا صرف 5 فیصد ہی ہوتا ہے جس پر ٹیکس نہیں دیا گیا ہے۔ باقی یا تو بیرون ممالک میں، زمین جائیداد میں، زیور میں اور سونے وغیرہ میں سرمایہ ہو جاتا ہے۔ اس کو تلاش کرنے میں کچھ محنت کرنی پڑے گی اور اس کوشش میں سیاسی چالباز کچھ اور کالا دھن پیدا کر لیں گے۔
اور ہاں، ایک بات اور، جتنی غیر ملکی سرمایہ کاری ہمارے یہاں آ رہی ہے اس کا 55 فیصد تو دراصل ہندوستانی کا پیسہ ہے جو باہر سے گھوم کر ہماری معیشت میں شامل ہو رہا ہے۔ ایسے میں کیا حکومت یہ پوچھنے کی تکلیف اٹھائے گی کہ اس پیسے کا اصل ذریعہ کیا ہے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔