اپوزیشن متحد ہے تو ممکن ہے...!
گزشتہ 10 سالوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مودی سرکار اپنی منمانی نہیں کر سکی ہے اس کے لیے تمام اپوزیشن پارٹیاں اور اس کے لیڈران مبارکباد کے مستحق ہیں
پچھلے کچھ عرصہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ’مسلمان‘ سے متعلق ہر معاملے کو بالخصوص شریعت سے منسلک موضوع کو کسی بھی طرح متنازع بنانے اور مسلم پرسنل لاء کو بدنام کرنے کا ایک فیشن چل پڑا ہے اور اس سلسلے میں اعلیٰ سرکاری اداروں میں موجود ایک مخصوص سوچ اپنی بنیادی ذمہ داریوں اور فرائض کو بالائے طاق رکھ کر فرقہ پرستوں کونوالہ دینے میں مصروف ہے۔ سردست معاملہ وقف ترمیمی بل کا ہے جس کے ذریعہ حکومت خالص مسلمانوں کی جائداد میں غیر ضروری مداخلت کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے وقف کی اصلی حیثیت اور خدا کی ملکیت کا تصور پامال ہوگا۔
حالانکہ ابتدائی طور پر مرکزی حکومت اپنی آمریت کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی ہے۔ اس معاملے میں کانگریس زیرقیادت اپوزیشن اتحاد نے فی الحال حکومت کو ایک اور غلط قدم اٹھانے سے روک دیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کی یہ بڑی جیت ہے کہ حکومت مجوزہ وقف ترمیمی بل کو جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) میں بھیجنے کو مجبور ہوئی ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں پہلی بار ہے جب کوئی معاملہ جے پی سی میں پہنچا ہے۔ ویسے کئی متنازع معاملے ہیں جن پرجے پی سی بہتر فیصلہ کرسکتی تھی مگرمودی حکومت کی مطلق العنانیت نے فرقہ پرستوں کو خوش کرنے کے لیے آئینی کمیٹی کی توہین سے گریز نہیں کیا۔
10 سال بعد ہی سہی اِس متنازعہ بل پرا پوزیشن پارٹیوں کی متحدہ آواز نے مودی حکومت کو بیک فٹ پر لاکر کھڑا کر دیا جس کے نتیجہ میں حکومت کو وقف ترمیمی بل کو مزید غور و فکر اور سدھار کے لئے جے پی سی کے پاس بھیجنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ اس وقف ترمیمی بل نے یہ ریکارڈ بھی بنا دیا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مودی سرکار اپنی منمانی نہیں کر سکی ہے۔ اس کے لیے تمام اپوزیشن پارٹیاں اور اس کے لیڈران مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس سے اِس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں مضبوط اپوزیشن کی کتنی اہمیت ہے کیونکہ یہ حکومت کو تانا شاہی سے روکنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا وقف ترمیمی بل 2024 کے مطالعہ کے بعد صاف ہو گیا کہ اس کے ذریعہ اوقاف کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ریلوے اور وزارت دفاع کے بعد سب سے زیادہ زمین وقف بورڈ کے پاس ہے اور یہ دوسروں کی زمین پر قبضہ ہے جو سب سے بڑا جھوٹ ہے کیونکہ وقف بورڈ تو ایک انچ وقف کی زمین کا مالک نہیں ہے، وہ صرف کیئر ٹیکر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نام پر مسلمانوں نے جو اپنی جائیداد عطیہ کی ہے وہ وقف ہے ،اس کی مالک نہ حکومت ہو سکتی ہے اور نہ وقف بورڈ ہو سکتا ہے۔ یہ صرف اللہ کی جائیداد ہے اور اللہ کی زمین پر کوئی کیسے قبضہ کر سکتا ہے۔
نئے بل لانے میں حکومت وہی روش اپنا رہی ہے جو وہ پہلے سے کرتی آئی ہے ، یعنی اصحاب معاملہ سے کوئی مشورہ کئے بغیر یہ نیا قانون بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک بنیادی اور اہم مسئلے پر متعلقہ سماج سے بات کرنے کی حکومت نے ضرورت نہیں سمجھی۔ اس بل کے ذریعے حکومت ’وقف ‘ کی نئی تعریف گڑھنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جو پچھلے5 سال سے اسلام پر پابند رہا ہو وہی اپنی جائداد کو وقف کر سکتا ہے ۔ ترمیمات میں حکومت یہ بھی طے کر رہی ہے کہ وقف کی جائداد میں ہونے والی آمدنی کہاں خرچ ہوگی۔ یہ دونوں باتیں اسلامی قانون کے خلاف ہیں۔
نئی ترمیمات سے یہ نئی روایت بھی پکی ہو رہی ہے کہ حکومت اہم اسلامی معاملات میں مسلم سماج سے مشورہ نہیں کرے گی۔ یہ روایت طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں 2019 کے بل سے شروع ہوئی تھی جب ایک وزیر نے پارلیمنٹ میں فخریہ اعلان کیا تھا کہ اس سلسلے میں مسلم سماج سے بات نہیں کی گئی ہے ۔ یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں بھی یہی ہو رہا ہے اور جلد ہی وہ مرحلہ آئے گا جب پارلیمنٹ میں بھی مسلم سماج سے مشورہ کئے بغیر ایک بل لا کر یونیفارم سول کوڈ نافذ کر دیا جائے گا۔ نئی ترمیمات نے ریاستی حکومتوں کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جسے چاہیں وقف بورڈ کا ممبر بنائیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ممبر مسلمان بھی ہوں۔
اسی طرح نئی ترمیمات کے ذریعے متولی کی واقف کے ذریعے زبانی تعین کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ زبانی طور سے کوئی جائداد وقف نہیں کی جا سکے گی۔ مجموعی طور پریہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کے وقف ترمیمی بل کے ذریعے مسلم علماء کا یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ وقف کے بارے میں اسلامی قانون کی تعین و تشریح کریں۔ اسی کے ساتھ وقف چلانے کی ذمہ داری بھی غیر مسلموں کے ہاتھوں میں دی جا رہی ہے جو کہ مذہبی سماجوں کے اس حق کی پا مالی کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقاف کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق چلائیں۔ جبکہ وقف شریعت سے وابستہ معاملہ ہے اور اگر حکومت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئی تو شریعت سے نابلد لوگ وقف کے سربراہ ہوں گے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت کا مجوزہ بل مساجد، مدارس اور وقف بورڈ کے حقوق پر تانا شاہی کے مترادف ہے۔ یہ بل دستور کے مخالف ہے اس لئے اس بل کی بڑے پیمانے پر مخالفت ضروری ہے۔ حکومت قومی دھرم کو نبھائے، بیروزگاری، مہنگائی، پچھڑا پن، غریبی ، ریزرویشن پر توجہ مرکوز کر کے سچی دیش بھگتی ثابت کرنے پر دھیان دے جو ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے۔ مرکزی حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں غیر دستوری طور پر مذکورہ قوانین کو تھوپنے کی کوشش نہ کرے۔ اس لئے کہ اس ملک کے قانون نے آرٹیکل 26 کے تحت مسلمانوں اور دیگر قوموں کو یہ آئینی حق دیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی ادارے آزادی سے چلا سکتے ہیں اور ان کا نظم و نسق کر سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔