کاپ 29: باکو موسمیاتی مالیاتی معاہدہ مایوس کن
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے غریب ممالک نے سالانہ ایک کھرب ڈالر کا مطالبہ کیا تھا جس پر اتفاق نہ ہو سکا۔ ان ممالک نے سالانہ 300ارب ڈالر فنڈکو ناکافی اور اپنی توہین قرار دیا ہے
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں کاپ 29 سربراہی اجلاس، جو کہ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کے لیے باضابطہ طور پر 29 ویں کانفرنس آف پارٹیز تھی، نے24 نومبر کو 300 بلین ڈالر سالانہ کا عالمی مالیاتی ہدف اپنایا تاکہ غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔ دو ہفتوں کی گفت و شنید کے بعد اس فنڈ پر اتفاق کیا گیا۔ کچھ مندوبین نے اس معاہدہ کا استقبال کیا جبکہ اس کے مطلوبہ وصول کنندگان ممالک نے فنڈ کو ناکافی قرار دیا۔ غریب ممالک کا کہنا ہے کہ یہ رقم موسمیاتی بحران پر موثر طور پر قابو پانے کے لیے ناکافی ہے جبکہ وہ اس مسئلے کے ذمہ دار بھی نہیں ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ انہیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے سالانہ کم از کم ایک کھرب ڈالر سے بھی زیادہ مالی وسائل درکار ہیں۔ تاہم، اس ہدف پر اتفاق رائے نہ ہو سکا جسے ان ممالک نے اپنی توہین قرار دیا ۔ علاوہ ازیں ممالک نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں کاربن مارکیٹ کے قیام پر بھی اتفاق کیا۔ یہ مارکیٹ کاربن کریڈٹ کی تجارت، ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور ماحول دوست منصوبے شروع کرنے میں سہولت دے گی۔ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی سے لے کر صاف توانائی کی ٹیکنالوجیز کی تعیناتی تک، گلوبل وارمنگ سے لڑنے کے لیے نئے منصوبوں میں مزید اربوں ڈالر جمع کیے جا سکتے ہیں۔
باکو معاہدے کا مقصد عالمی حدت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو ایک ایسے سال میں رفتار فراہم کرنا ہے جو سب سے زیادہ گرم ہوگا۔مجموعی طور پر کلائمیٹ فنانسنگ کے ہدف کو 2035 تک کم از کم 1.3 کھرب ڈالر تک پہنچایا جائے گا۔ یہ معاہدہ 2035 تک سالانہ 300 ارب ڈالر فراہم کرے گا، اس سے موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کے امیر ممالک کے سابقہ وعدے کو فروغ ملے گا جو دو سال کی تاخیر سے، 2022 میں پورا ہوا، اور 2025 میں ختم ہو جائے گا۔ باکو معاہدہ نے برازیل میں منعقد ہونے والے اگلے سال کے موسمیاتی سربراہی اجلاس کی بنیاد بھی رکھی، جس کا مقصد اگلی دہائی کے موسمیاتی عمل کا نقشہ تیار کرنا ہے۔ تاہم، یہ معاہدہ اس بارے میں تفصیلی اقدامات طے کرنے میں ناکام رہا کہ ممالک معدنی ایندھن سے منتقلی کے لیے گزشتہ سال کے اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس کے وعدے پر کیسے عمل کریں گے۔ اور وہ اس دہائی میں قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو کس طرح تین گنا کریں گے۔ بعض مذاکرات کاروں کے مطابق سعودی عرب نے اس طرح کے منصوبے کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم، سعودی حکام نے اس بابت کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
کانفرنس کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا کہ یہ سال دنیا کے لیے نہایت مشکل رہا۔ اس دوران کرہ ارض کے درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے کو ملا اور دنیا بھر میں لوگ شدید موسمیاتی حوادث کا نشانہ بنتے رہے۔ ترقی پذیر دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے میں مدد دینے کے لیے بڑی مقدار میں مالی وسائل کی فراہمی اس کانفرنس کا بنیادی مقصد تھا۔ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے ہدف کو برقرار رکھنے پر اتفاق رائے ہوا جو کہ موسمیاتی تبدیلی کو بدترین صورت اختیار کرنے سے روکنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ تاہم، انہوں نے کانفرنس کے مجموعی نتائج پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مالی وسائل کی فراہمی اور عالمی حدت میں اضافے کو روکنے کے حوالے سے مزید پرعزم فیصلوں کی امید کر رہے تھے۔ خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہونے کے باوجود، 300 ارب ڈالر کے مالی وسائل کی فراہمی پر اتفاق رائے خوش آئند ہے۔ تاہم، مالی وسائل کی فراہمی کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ہی اصل کامیابی ہو گی۔تمام ممالک نئے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے باہم مل کر کام کریں۔
انتونیو گوتیرش نے مزید کہا کہ 'کاپ 29' میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے اور ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے اہداف کو بھی مزید آگے بڑھایا گیا ہے۔ غیریقینی اور منقسم ارضی سیاسی منظرنامے میں یہ بڑی کامیابی قرار دی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ طے شدہ مالیاتی معاہدے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ جن معاہدوں پر اتفاق رائے ہوا ہے ان پر مکمل اور بروقت عملدرآمد ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ناصرف اس کانفرنس میں حاصل ہونے والی کامیابی ضائع ہو جائیں گی بلکہ دنیا کے مستقبل کو تحفظ دینے کے لیے کی جانے والی عالمگیر کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔
اقوام متحدہ کے آب و ہوا کے سربراہ سائمن اسٹیل نے مشکل مذاکرات کے نتیجے میں ہوئے اس معاہدہ کو گلوبل وارمنگ کے خلاف انسانیت کے لیے انشورنس پالیسی قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ ایک مشکل سفر ہے، لیکن یہ ڈیل صاف توانائی کی تیزی کو بڑھائے گی اور اربوں زندگیوں کی حفاظت کرے گی۔ لیکن کسی بھی انشورنس پالیسی کی طرح یہ صرف اس وقت کارآمد ہوگی اگر پریمیم مکمل طور پر اور وقت پر ادا کیا جائے۔ دوسری جانب ہندوستانی وفد میں شامل چاندنی رینا نے اختتامی سیشن کو بتایا کہ انہیں یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ یہ معاہدہ ایک نظری فریب سے زیادہ کچھ نہیں ، ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور معدنی ایندھن کے استعمال میں مسلسل اضافہ کے ساتھ، 2024 کی اقوام متحدہ کی ایمیشنز گیپ رپورٹ کے مطابق، دنیا اس صدی کے آخر تک 3.1 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت کے راستے پر گامزن ہے۔ لہٰذا ممالک عالمی درجہ حرارت میں اضافے ، جس سے مستقبل میں تباہ کن آب و ہوا کے اثرات ہو سکتے ہیں ، کو صنعتی دور سے پہلے کی سطحوں سے 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کے پیرس معاہدے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے فنانسنگ کے انتظام میں مصروف ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صنعتی ممالک کےذریعے معدنی ایندھن کا استعمال گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ لہٰذا باکو کانفرنس کے دوران صنعتی ممالک کی مالی ذمہ داری بحث کا مرکز رہی تاکہ دوسرے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے بڑھتے ہوئے نقصان کی تلافی کی جاسکے۔
اس بحث نے مشکل مالی حالات کی وجہ سے مجبور دولت مند حکومتوں اور طوفانوں، سیلابوں اور خشک سالی سے دوچار ترقی پذیر ممالک کے درمیان کھلی تقسیم بھی کر دی۔ تقریباً دو درجن صنعتی ممالک بشمول امریکہ، یورپی ممالک اور کینیڈا فنڈز فراہم کرنے والے امیر ممالک میں شامل ہیں۔ یورپی حکومتوں نے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین اور تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستوں سمیت دوسروں سے فنڈز فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ باکو معاہدہ ترقی پذیر ممالک کو بھی تعاون کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ معاہدے میں 2035 تک سالانہ 1.3 کھرب ڈالر موسمیاتی فنانس جمع کرنے کا ایک بڑا ہدف شامل ہے -
موسمیاتی مالیاتی معاہدہ شروع سے ہی ایک چیلنج رہا ہے اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی سے شکوک و شبہات جنم لیا ہے کہ کیا دنیا کی سب سے بڑی معیشت باکو میں طے پانے والے کسی بھی موسمیاتی مالیاتی ہدف کی ادائیگی کرے گی۔ ٹرمپ نے موسمیاتی تبدیلی کو ایک دھوکہ قرار دیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کو دوبارہ بین الاقوامی ماحولیاتی تعاون سے ہٹا دیں گے۔ مغربی حکومتوں نے بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ، بشمول یوکرین ـ روس جنگ اور مغربی ایشیا میں بڑھتے ہوئے تنازعات، اور بڑھتی ہوئی افراط زر کے درمیان گلوبل وارمنگ کو ترجیحات کی فہرست میں نیچے دھکیل دیا ہے۔ جب کہ ترقی پذیر ممالک سے مالی اعانت کا مطالبہ ایسے وقت کیا جا رہا ہے جب سائنسدانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ سال سب سے زیادہ گرم ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔