کانگریس کو پارٹی چھوڑنے والوں کے لیے مؤثر رہنما اصول وضع کرنے کی ضرورت

کانگریس کو ایسا اصول وضع کرنا چاہئے کہ جو افراد اقتدار کی ہوس میں وفاداری تبدیل کرتے ہیں، انہیں پارٹی چھوڑنے کے بعد دوبارہ واپسی پر پارٹی کے کسی بھی اہم عہدے یا انتخاب میں نمائندگی کا موقع نہ دیا جائے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

سیلم پور کے سابق کونسلر زبیر احمد اپنی اہلیہ، جو موجودہ کونسلر ہیں، کے ہمراہ کانگریس پارٹی چھوڑ کر عام آدمی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ کہا جا رہا ہے کہ سابق رکن اسمبلی چودھری متین کے فرزند زبیر احمد کو عام آدمی پارٹی اسی حلقے سے امیدوار نامزد کرے گی جہاں سے گزشتہ دس سال سے عام آدمی پارٹی ان کے والد کو ہراتی رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، وہاں سے عام آدمی پارٹی کے موجودہ رکن اسمبلی عبدالرحمن کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور پارٹی انہیں آئندہ انتخابات میں ٹکٹ دینے کا ارادہ نہیں رکھتی، اس لیے زبیر احمد کو پارٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

چودھری متین، جو 1993 سے 2015 تک سیلم پور اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کرتے رہے اور تقریباً 17 سال تک کانگریس کے نمائندہ رہے، ابھی بھی کانگریس کا حصہ ہیں۔ یعنی باپ اور بیٹے دونوں اس وقت علاقے میں دو مختلف سیاسی پارٹیوں میں شامل ہیں، اور کب تک برقرار رہتے ہیں یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی میں شمولیت سے ایک دن قبل زبیر احمد اور ان کے والد کانگریس کی ایک پریس کانفرنس میں شامل تھے، جس میں کانگریس نے ’دہلی نیائے یاترا‘ کا اعلان کیا تھا۔


سیاست میں نظریات کے فقدان کی بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جس طرح لوگ اپنے مفاد کے لیے نوکریاں اور کاروبار تبدیل کرتے ہیں، ویسے ہی سیاست دان بھی اپنے مفاد میں پارٹیاں بدل لیتے ہیں۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پہلے ہتھیاروں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا جاتا تھا اور آج اس کی جگہ ووٹوں نے لے لی ہے، اسی لئے اسے نوکری کی تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب اقتدار ہی سب کچھ ہے۔

کانگریس نے دہلی میں پندرہ سال حکومت کی ہے، مگر 2015 کے بعد سے کوئی بھی نمائندہ اسمبلی میں نہیں رہا۔ اس عرصے میں کئی سیاست دانوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں؛ کچھ بی جے پی میں شامل ہو گئے اور کچھ عام آدمی پارٹی میں۔ اس سخت دور میں بھی چودھری متین نے دو مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا، مگر دونوں مرتبہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار سے شکست کھائی۔ اس کے باوجود انہوں نے پارٹی نہیں چھوڑی اور اس خراب دور میں بھی پہلے ان کے فرزند زبیر احمد اور پھر ان کی بہو کانگریس کی کونسلر بنیں۔ تاہم، چودھری متین اور ان کے فرزند کو شاید یہ احساس ہوا کہ وہ اس مرتبہ کامیاب نہیں ہو سکتے، اس لیے زبیر احمد نے پارٹی بدل لی۔


گزشتہ دس سالوں سے ملک کی اقلیتیں اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کا حکومت میں کسی قسم کا کردار نہیں ہے، مگر وہ اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں اور شاید یہی ان کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ ہندوستانی سماج کی زندہ سوچ برقرار ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کے بیشتر رہنماؤں نے یا تو حکومت کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے یا حکومت جیسی حرکات اختیار کر لی ہیں، مگر ایسے وقت میں راہل گاندھی واحد رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں جنہوں نے اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور ملک میں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ایسے میں ان کے نظریات کے حامی لوگوں نے مشکلات کے باوجود ان کا ساتھ دیا، جب کہ کچھ افراد اقتدار کی ہوس میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہے۔

کانگریس کو چاہیے کہ وہ ایک اصول وضع کرے کہ جو افراد اقتدار کی ہوس میں وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں، انہیں پارٹی چھوڑنے کے بعد دوبارہ واپسی پر پارٹی کے کسی بھی اہم عہدے یا انتخاب میں نمائندگی کا موقع نہ دیا جائے۔ کانگریس کو ایک کولنگ پیریڈ رکھنا چاہیے، یعنی اگلے انتخابات تک پارٹی میں واپس آنے والے کو ٹکٹ نہیں دینا چاہیے اور ان افراد کے خون کے رشتے دار، اگر کانگریس میں ہوں، تو انہیں بھی کسی اہم عہدے یا میٹنگ میں شامل نہ کیا جائے۔ اس طرح کا اصول بنانا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ پارٹی سے جانے والے اس فیصلے کے نتائج کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہوں اور وفادار کانگریسی کارکنوں کو انعام و ستائش بھی مل سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔